کرکٹ بورڈ میں بیٹھے لوگ اربوں روپے کھا گئے مگر ان سے ڈھنگ کی ایک ٹیم بھی نہیں بن پائی۔ اندر کی گندی سیاست اور گروپ بندی نے قومی ٹیم کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے، پاکستان کے کھوٹے سکے بڑے بیچ میں نہیں چل سکے ، شائقین کو بھارت کے خلاف میچ میں مایوسی کا تحفہ دینے کا سلسلہ برقرار رکھا، سلیکشن پینل کی تجرباتی ٹیم اپنے ملک میں جاری چیمپیئنز ٹرافی کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔ ہم غلطیوں سے سبق ہی نہیں سیکھ سکے ، اس مقابلے میں بھی بے شمار غلطیاں کیں ، بھارتی ٹیم کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد کپتان محمد رضوان کہتے ہیں کہ ہم غلطیوں سے سبق ہی نہیں سیکھ سکے ، اس مقابلے میں بھی بے شمار غلطیاں کیں ، ٹاس جیتنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، ویراٹ کوہلی اور شب من گل ہم سے مقابلے کو دور لے گئے ،اس اہم ترین میچ کیلیے پاکستان کے کھلاڑی کھوٹے سکے ثابت ہوئے جو کہ بڑے مقابلے میں نہیں چل سکے ، بھارت کے ہاتھوں اہم ایونٹس میں گرین شرٹس کی جانب سے شائقین کو مایوسی کا تحفہ در رہا۔ اس اہم ترین ایونٹ کیلیے جو ٹیم منتخب کی گئی تھی اس پر بہت زیادہ تنقید بھی کی گئی تھی، جس پر چیئر مین پی سی بی محسن نقوی نے سائیکٹر ز کو اس اسکواڈ پر نظر ثانی کا مشورہ بھی دیا تھا تاہم عاقب جاوید نے اپنے منتخب کردہ کھلاڑیوں پر ہی ڈٹے رہنے کا فیصلہ سنایا تھا، اس ٹیم کو نہ صرف ٹرائنگولر سیریز میں دو مرتبہ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں مات ہوئی بلکہ چیمپئنز ٹرافی کے ابتدائی میچ میں بھی کیویز نے پاکستان کو زیر کر کے اس کا چیمپیئنز ٹرافی میں سفر دشوار بنایا اور اب دبئی میں بھارت نے گرین شرٹس کو ٹرافی کی دوڑ سے باہر کر دیا ہے۔ یعنی جیسے بابر اعظم کو اپنے آپ سے محبت شاید یہ بھی درست نہیں ہے وہ تو ایک خوف زدہ کھلاڑی ہے اور خود غرضی نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ چلیے کرکٹ پر کچھ بات کرتے ہیں بابر اعظم نے جو کیا سو کیا مگر اس کے علاوہ بھی ہم کہیں کے نہیں رہے۔ غالب نے کہا تھا: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کے دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے ہمارے مقدر ہی ہارے ہوئے ہیں ہمارے ذہنیت ہی کچھ اس طرح کی بن چکی ہے ہم اس اس سے بھی ہارے جس سے کوئی ہارنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ ورلڈ کپ یاد کر لیں اب ذرا اور آگے آئیں کچھ کچھ ہم صائم ایوب کی وجہ سے سنبھلے تھے یا یوں کہہ لیں کہ اس نے بہت سوں پر پردہ ڈال دیا تھا ،اس بے چارے کو نظر کھا ئی۔ سچ مچ نظر برحق ہے اس کی ناقابل یقین شارٹس پر روہت شرما جیسا کھلاڑی کاندھے اچک رہا تھا اور کہتا تھا پتہ نہیں وہ گیندکو بغیر دیکھے کھیل لیتا تھا اس کے بعد ایک فخر زماں تھا وہ بھی زخمی ہو گیا پتہ چلا کہ وہ زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کو کوئی سیریس بیماری ہے کہ اس کے مسلز کام نہیں کرتے کمزور پڑ گئے ہیں وہ انجیکشن لگوا کر کھیلنے آیا اور اب چمپئن ٹرافی سے باہر ہو گیا ہے۔ سب کھیل مقدروں کے ہیں اصل میں ہماری نیت ہی کچھ اس طرح کی ہے اور نیت ہی سے مراد ملتی ہے یہ صرف کرکٹ ٹیم کی نیت نہیں بلکہ حکمرانوں کی۔ اب حکمرانوں پر کیا لکھیں کہ وہاں کون سا میرٹ ہے۔نجیب احمد کا شعر یاد آیا: ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے بابر اعظم کی بیٹنگ پر انسان سوچ سوچ کر تھک جاتا ہے کہ آخر اتنی بھی کیا آفت آئی تھی کون سے میچ میں کھڈے تھے یا کوئی اور مسئلہ تھا۔بیٹنگ پچ تھی پہلے دس اوورز تو بہت قیمتی ہوتے ہیں فیلڈر سرکل میں ہوتے ہیں مگر دس اوورز میں بائیس رنز ان میں وائیڈ بالز بھی ہوں گے یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہو بابر نے سنتالیس بالز کھیلیں 90بائولز پر 64رنز کئے یقین ہو چلا کہ کوئی نہ کوئی قوت پیچھے تھی اسی طرح جیسے مصباح الحق نے ورلڈ کپ میں کیا تھا۔ایورج بڑھا کر چھکے مارنے لگا آج تک مصباح الحق کو بابا ٹک ٹک کہا جاتا ہے۔ اسی قسم کی حرکت وسیم اکرم نے ورلڈ کپ میں کی تھی کہ سیمی فائنل نہیں کھیلا اور گرائونڈ میں آ کر دانت نکالتا رہا لوگوں نے اس کے گھر پر حملہ بھی کیا تھا۔لوگ نہیں بھولتے۔ہارون الرشید کو نہیں بھولے جس نے ماجد خاں اور ظہیر کے بعد آ کر ڈک کرنا شروع کیا اب تو سارے کا سارا ملبہ بابر اعظم پر آ گرا کیا فائدہ نمبر ایک بننے کی کوشش کا کہ اب کرکٹ کے شائقین کی نظر ہی سے گر گئے۔ اس مسلسل ہار میں آفریدی کا بھی کافی ہاتھ ہے اس کے آخری اوورز میں تو نیوزی لینڈ والوں نے اس کا بھرکس نکال دیا وہ ہر بال پر بالوں کو یوں جھٹکتا ہے جیسے وہ دنیا کا نمبر ایک بائولر ہے۔ حارث رائوف کا جو حشر ہوتا ہے وہ بتانے کے بھی لائق نہیں۔ مجھے کبھی بھی بابر اعظم سے اس قدر نفرت نہیں ہوئی جیسے اب کے ہوئی کہ تو 310کے سکور کو دیکھے بغیر ڈاٹ بال کھائے جا رہا یعنی جیسے باقاعدہ مخالف کے حق میں کھیل کر جیت کو اپنی ٹیم کے لئے ناممکن بنا رہا ہے۔
ہماری کرکٹ ٹیم کا ہیرا اور کامیاب ترین کپتان جس نے ٹی 20 ورلڈکپ اور چیمپئنز ٹرافی جتوائی اس کو 3 سال سے کبھی پانی پلانے پر لگا رکھا ہے اور کبھی باہر بٹھایا ہوا ہے لیکن اس کی شرافت ہے کہ اس نے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا بلکہ اپنی ٹیم کیلئے ہمیشہ کامیابی کی دعا کی، آئی سی سی نے اس کی خدمات کے پیش نظر اس کو چیمپئنز ٹرافی کا برینڈ ایمبیسڈر بنا دیا لیکن ہمارے چیئرمین کو کچھ احساس نہ ہوا اب بھی وقت ہے کہ اس عظیم کپتان کو دوبارہ ایک سال کیلئے ٹیم کا کپتان بنا دیں پھر دیکھیں وہ کس طرح ہماری ٹیم کا وقار بحال کرتا ہے اور وہ ہے صرف اور صرف سرفراز احمد جو کبھی دھوکا نہیں دیگا۔
٭٭٭