اہلیان کراچی 19 فروری کو کراچی اسٹیڈیم میں نیوزی لینڈ بمقابلہ پاکستان کا میچ دیکھنے کے بجائے ٹیم کے کپتان محمد رضوان اور شاہین آفریدی کے درمیان تو تو میں میں پر اپنی توجہ مبذول کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، شاہین آفریدی بڑی چست رفتاری سے محمد رضوان کے ہر طعن و تشنہ کا جواب دے رہے تھے، یہ واقعہ 47th اوور کی پہلی بال پر پیش آیا جب ٹام لیتھم نے ایک چوکا مارکر اپنی سنچری کو مکمل کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ کہیے کہ وہ بال خطرناک طریقے سے شاہین آفریدی کے قریب سے گزر گیا تھاجس پر ٹیم کے کپتان محمد رضوان خاموش نہ رہ سکے اور چیخ کر شاہین آفریدی کو کہا کہ اُنہیں اپنی پوری توجہ صرف کھیل اور کھیل پر دینی چاہیے جس پر شاہین آفریدی نے بھی چیخ کر جواب دیا کہ میں یہاں کوئی مکھی نہیں مار رہا ہوں، اُن کی یہ تلخ کلامی کھیل کے بعد ڈریسنگ روم تک پہنچ گئی اور محمد رضوان موقع پاتے ہی شاہین آفریدی کو گھیرے میں لے کر رنجشی انداز میں کہا کہ ” آپ کو ٹیم میں شامل کروانے کا سہرا میرے سر پر ہے ورنہ سہراب گوٹھ پر آج بھی چائے فروخت کر رہے ہوتے ” محمد رضوان کی یہ باتیں بجلی بن کر شاہین آفریدی پر برس پڑیں اور اُنہوں نے بھی چیخ کر کہا کہ ” اِس میں کوئی حقیقت نہیں ، میں اپنی صلاحیت سے پاکستان کی ٹیم میں شامل ہوا ہوں، البتہ لوگ کہتے ہیں آپ شروع سے لے کر آخر تک سفارش کی پیداوار ہیں اور اگر کرکٹ ٹیم میں نہ ہوتے تو پشاور سے پنڈی تک کی روٹ پر بس چلایا کرتے، آپ صرف اِس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ میں مستقبل کا کپتان بننے جارہا ہوں اور کیوں نہیں آپ میرا اُس سے قبل ہی صفایا کر دیں ” ”سنو بچے ! یہ میرا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ نے آج تک بے شمار کیچ مِس کئے ہیں اور جس کی وجہ کر ہماری ٹیم بدنام ہوئی ہے” ” نہیں جی! ہر ایک نے کیچ مِس کیا ہے ، یہ آپ میرے سر پر سارا الزام کیوں تھونپ رہے ہیں، ہر ایک صفر پر آؤٹ ہوا ہے، صرف میں ہی کیوں؟” پاکستان کی ٹیم بھارت کے مقابلے میں اپنا تاریخی میچ نہ جیت سکی،مبصرین کا کہنا ہے کہ میچ ہارنے کی وجہ کھلاڑیوں کی عدم دلچسپی، مطلوبہ تجربے کا فقدان اور زیر ضرورت تربیت کا نہ ہونا تھا حتیٰ کہ میچ کے ایک دِن قبل ٹیم کے اہم کھلاڑی بابر اعظم پریکٹس کیلئے حاضر نہ ہوئے تھے، جب اُن سے اِس کی وجہ دریافت کی گئی تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُنہیں اُن لوگوں سے تربیت نہیں چاہیے جنہیں اُنہوں نے تربیت دی ہے، اُن کا مدعا تھا کہ اگر پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کو تربیت دینا ہے تو اُنہیں انگلینڈ یا آسٹریلیا بھیجا جائے نہ کہ کسی کونے میں بند کر کے اُن پر گیندوں کی بارش کی جا ئے۔ بہرکیف پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں میں تربیت کے نہ ہونے کا احساس ہر شائقین کرکٹ کو ہوتا ہے ،بھارت سے میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی اِس کی منھ بولتی تصویر ہے، پاکستان کے بیٹروں نے رن آؤٹ اور ایل بی ڈبلو سے آؤٹ ہونے میں اپنا ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے اور جس کا مقابلہ کسی اور ٹیم سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔اِس کی واحد وجہ تربیت کا فقدان ہے، شاہین آفریدی جیسے کھلاڑی زیرو رن پر ایل بی ڈبلو سے آؤٹ ہوگئے تھے جبکہ رن آؤٹ سے آؤٹ ہونے والوں میں امام الحق اور حارث رؤف ہیں، امام الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب سے اُنہوں نے قدم رکھا ہے چھ مرتبہ رن آؤٹ ہوچکے ہیں، اُنکے چچا انضمام الحق چالیس مرتبہ رن آؤٹ ہوکر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا۔بالآخر آئی سی سی نے چیمپئنزٹرافی کے ارباب حل و عقد پر تماشہ بین کی کم تعداد میں میچ دیکھنے کیلئے آنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے،آئی سی سی کا کہنا ہے کہ اگر اُنہیں معلوم ہوتا کہ کراچی میں شائقین کرکٹ کی اتنی کم تعداد میچ دیکھنے آئیگی تو چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد وہ کسی اور شہر یا ملک میں کرواتے، آئی سی سی کا اندازہ ہے کہ کم آنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے میچز دو ملکوں اور دو شہروں میں کھیلے جارہے ہیں، پی سی بی کے حکام نے شائقین کی کم آنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے شہری
شام کے چھ بجے سٹیڈیم آنے اور پھر رات کے بارہ بجے واپس گھر جانے کی مہم جوئی کرنے سے گھبراتے ہیں، اُنہیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ ٹریفک کے حادثات یا جرائم کی واردات کا نشانہ نہ بن جائیں،ماضی میں یقینا کار جیکنگ اور لوٹ مار کی وارداتیں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ اِس لئے بعض شائقین نے خصوصی طور پر باڈی گارڈ کو اپنے ساتھ لانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اُس کی اجرت بمع ڈنر اور چائے پانی کے اخراجات کی ادائیگی کرتے ہیںاور بعض شائقین میچ گھر پر ہی ٹی وی پر دیکھ لیتے ہیں اور جب کوئی استفسار کرتا ہے تو اُسے یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اسٹیڈیم میں بیٹھے ہیں اور بابر اعظم اُن سے چند گز کے فاصلے پر بیٹنگ کرتے ہوے بولڈ آؤٹ ہوئے اور اُنہوں نے چیخ کر اُسے کہا تھا کہ نیور مائنڈ . نیکسٹ ٹائم یا جب تک کہ تمہارے باپ کی سفارش چلتی رہے گی۔کراچی میں ایک کرکٹ گینگ بھی عمل میں آگیا ہے جو لوگوں سے بھتہ لے کر اُنہیں سٹیڈیم کے اندر داخل کرا دیتا ہے، کرکٹ گینگ کے اہلکار بھتہ کے بدلے ٹکٹ کے بجائے پرچی تھمادیتے ہیں، یہ پرچیاں سہراب گوٹھ یا ملیر سے خریدی جاسکتی ہے، کراچی کے حکام یہ جانتے ہوئے بھی اِس پر پردہ پوشی کررہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ آج کوئی کرکٹ کھیل کا مداح پرچی لے کر اسٹیڈیم میں داخل ہوتا ہے تو کل وہ ٹکٹ خرید کر آئے گا، اِسے کہتے ہیں امریکی ڈپلومیسی۔