درندے حکمران اور گدھے عوام!!!

0
101
شبیر گُل

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ اللہ رب العزت نے نبیء کریم کے ذریعہ اس مہینہ کو رحمت،مغفرت اور دوزخ سے آزادی کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں کے دل نرم، رحم، ہمدردی، ایثار ،معاف کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو ھمارا اسلامی اور مذہبی اشعار ہے مگر ہم بیحیثت قوم درندے بن چکے ہیں۔ ہماری اخلاقی قدریں اور اسلامی روایات ختم ہوچکی ہیں۔ ہم ہر سال عمرے اور حج کرتے بیں۔ دلوں میں قدورتیں،نفرتیں،اور بغض پالتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ اشیا بیچتے ہیں، چیزیں مہنگی کردیتے ہیں۔ آسانیوں کی جگہ مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ جو نہ ہماری تہذیب ہے اور نہ ہمارا شیوہ۔آج کفار انسانی قدروں میں ہم سے آگے، اور اخلاقی رواداری میں ہمیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ جومذہب انسانوں کی تعلیم و تربیت، تہذیب وتمدن کی معراج تھا ۔ آج وہاں انسانوں کی زندگی اجیرن،رہن سہن مشکل بنادیا گیا ہے۔ مملکت خدادا میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ غریب اور متوسط طبقہ کے لئے انتہائی اذیت ناک،خوفناک، پریشانیوں اور مصیبتوں کا پہاڑ بن کر آرہا ہے۔ بجلی ،گیس، پانی کے بل اور پٹرول اور کھانے پینے کی قیمتیں پہنچ سے دور بیں۔ غیر مسلم ممالک میں انسانوں کی آسانی کے لئے کرسمس اوردوسرے تہوار پر چیزیں سستی کردی جاتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں گراسری،فروٹس اور کپڑوں پر بڑی بڑی سیل لگائی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے ماہ میں بڑے گراسری سٹورز پر تیل،آٹا،چینی،چاول ،دالیں اور مصالحہ جات سستے کردئیے جاتے ہیں۔ یعنی غیر مسلم بزنس مین ۔ مسلمانوں کے بابرکت اور مقدس مہینہ میں اشیا خوردونوش سستی کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلم ممالک ، خصوصا پاکستان میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں قصدا بڑھا دی جاتی ہیں۔ رحمت اور برکت کے مہینہ میں قیمتیں بڑھا کر عوام کے لئے دقت پیدا کی جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ معاشرہ انسانی ہمدردی اور بھلائی سے کیوں محروم ہے۔ ہم کلمہ گو ضرور ہیں۔ لیکن سفاکیت اور حیوانیت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اپنے اوپر ان لوگوں کو مسلط کرتے ہیں جنکا انسانیت، سے دور کا واسطہ نہئں۔ یہ لوگ منتحب ہو کر کرپشن اور بددیانتی میں عوامی امنگوں کا خون کردیتے ہیں۔ جو بھی حکمران آتا ہے اپنے گرد کریمنلز کا حلقہ رکھتا ہے جنہیں اپنے انتحابی وعدے بھول جاتے ہیں۔ یہ طبقہ جانوروں کا طبقہ ہے، جن کی کوئی حس نہیں ہوتی ۔ عوام ان سفاک درندوں کو اپنے اوپر مسلط کرکے چار سال عذاب بھگتتے ہیں۔ معزز قارئین کرام! وطن عزیز کے حالات دیکھ کر دل خون آنسو روتا ہے۔ ھمارے ملک پر منحوس ،سفاک درندوں اور بے رحم بدمعاشوں کا راج ہے۔ انکے مفادات پاکستان مخالف اور عوام دشمنی ہے۔ یہ لٹیرے اور غنڈے ،کرپٹ جرنیلوں کے ذریعے بار بار مسلط کئے جاتے ہیں۔ ان فوجی جرنیلوں کی پالیسیوں نے آدھا ملک گنوا دیا۔ بلوچستان، خیبرپختون خواہ ، گوادر، کراچی اور تمام صوبوں میں اسے پنجابی فوج کہا جاتا ہے۔ جرنیلی مافیا اور کڑوڑ کمانڈرز بلیک میلرز اور وحشی درندے ہیں جو لوگوں کی ننگی ویڈیوز بنواتے ہیں۔ ججوں کی ویڈیوز بنواتے ہیں۔ اور اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ ان کرپٹ جرنیلوں اور کرپٹ سیاستدانوں نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے۔ عوامی امنگوں کی ترجمان لیڈرشپ،سفاکی،درندگی اور بے حیائی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد اور پی ٹی آئی نے ملک کا دیوالیہ کردیا ہے۔ قوم کی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ ان جماعتوں میں کارکنان کی اکثریت گالیوں کی برگیڈ ۔قاتلوں،ڈاکوں اور کرپٹ مافیا کی بھر مار ہے۔ ان جماعتوں کا گانے بنانے،ڈانس کرانے کے علاوہ کوئی اصلاحی،فلاحی اور تربیتی ایجنڈا نہیں۔ فوج گانے بنانے، ڈرامے بنانے کے علاوہ کوئء نئی invention نہئں کرسکی۔ دوسروں سے اسلحہ خرید کر ملکی دفاع نہیں جاسوسی کی جاتی ہے۔ عدلیہ اور ججز کی تضہیک کی جاتی ہے۔ سیاسی لیڈر اپنی پیشیوں پر جلوسوں کی شکل میں فیصلوں پر اثرانداز ہو تے ہیں۔ کبھی عمران ججز کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ کبھی مریم ۔ آئیندہ دنوں عدلیہ پر کڑاامتحان آنے والا ہے۔ ججز تنقید و تضہیک کی زد میں ہیں۔ مسلم لیگ ن کا طرز سیاست ماضی سے مختلف نہیں ہوگا۔ججز کے خلاف طوفان بدتمیزی کا آغاز انتہائی شدومد سے جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز بے وقعت ہوچکے ہیں۔ مریم نواز شریف کی زبان انتہائی دھمکی آمیز اور کبھی پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور اب ن لیگ کا سوشل میڈیا ججز کو ماں بہن کی گالیاں دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا وقار اور جج صاحبان کی عزت دا پر ہے۔ اگر مریم نواز ،خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ کی بد تہذیبی کو لگام نہ دی گئی تو لیگی قیادت ججز کو کھلے عام گالیاں بھی دے سکتی ہے۔ ججز اور جرنیل سیاسی جماعتوں کی حمایت میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ جیالے،یوتھئیے اور پٹواری ۔ لیڈروں کی اندھی تقلید میں پاگل ہیں۔ جیل بھرو تحریک سیاسی مذاق بن گیا ہے۔ دو جنرل دو جج دو سیاسی قوتیں اس ملک کے ساتھ کھلواڑ میں مصروف ہیں۔ عوام کا مہنگائی سے بھرکس نکل گیا ہے۔ ملکی سیاست کے حالات تو پہلے ہی دگرگوں تھے۔ اب ملک کے مجموعی حالات خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ملک پر کھوتے مسلط ہیں۔ ایک خواجہ سرا وزارت خارجہ جبکہ موالی اور غنڈے وزارت داخلہ چلا رہے ہیں۔ فراڈئیے، فسادئیے، چور اور ڈاکو ہم پر مسلط ہیں۔ نگران وزیر تعلیم رحمت سلام مرحوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ کسی عرب ملک میں ایک شیخ کے ساتھ کروڑوں کا فراڈ کر کے بھاگ آیا ۔ وہ شیخ اپنے سفارتخانے کے ذریعہ اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے پاکستان پہنچ گیا ۔ رحمت سلام کو پتہ چلا تو اس نے کرک کے مشہور بزرگ سیاست دان اسلم خٹک مرحوم جو کہ آکسفورڈ کا پڑھا ہواتھا ،سے مدد طلب کی۔ انہوں نے مرنے کا مشورہ دیا جس پر اس نے باقاعدہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوائی اور اپنا مزار بھی ۔ شیخ جب کرک پہنچا تو اس کو رحمت سلام کے مرنے کے بارے میں بتایا گیا ۔ شیخ زارو قطار رونے لگا اور اصرار کیا کہ مجھے اس کی قبر پر لے جایا جائے ۔قبر پر پہنچ کر شیخ نے اس کی بخشش کے لیے رقت آمیز دعا کی۔لوٹی ہوئی دولت بخش دی اور بقول راوی شیخ، رحمت سلام کے بچوں کو مزید کئی لاکھ ریال دے کر واپس اپنے ملک سدھار گیا ۔اب کرک میں یہ رحمت سلام مرحوم کے نام سے معروف ہیں ۔ یہ جمعیت علما اسلام کا مقامی رہنما ہے۔اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام قائم کرنے کے لئے قومی اسمبلی کا امیدوار بھی ہے۔نگران وزیرتعلیم کی اہم ذمہ داری کا بوجھ بھی اس پر لاد دیا گیا ہے۔ آگے قوم کے نصیب ۔اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں سزا یافتہ وزیر اعظم، قاتل وزیرِداخلہ اور نیب سے مک مکا کرنے والا نگران وزیراعلی پنجاب ہوگا تو عوام کو اپنی قبروں کا انتظام کرنا پڑے گا ۔ کیونکہ جلادوں کا اقتدار ہے۔ جنکا کام عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسانا ہے۔ عمران خان یوتھئیے اور ٹائیگرز ساتھ جتھوں کی شکل میں کورٹ پہنچتا ہے۔ سیکورٹی ادارے انہیں کورٹ کے احاطے سے دور روک کر دنگا اور فساد کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن نے ملکی حالات کو جنگی ماحول میں تبدیل کردیا ہے۔ جو ملکی امن، معاشی بربادی اور داخلی انتشار کا شاخسانہ ہے۔ سابق جسٹس ناصرہ جاوید نے جیل بھرو تحریک پر ریمارکس میں کہا کہ یہ۔کیسا لیڈر ہے جو خود تو ضمانتیں کروا رہا ہے دوستوں کو جیل بھجوا رہا ہے میں اپنے بیٹے ولید اقبال کی ضمانت نہیں کرواں گی میں نے کہا تھا گرفتاری دو خود ہی جاکر وین میں بیٹھ گئے ہیں ہائی کورٹ کا بھی وقت ضائع کیا۔ قارئین!۔ جس دن مہنگائی کے ہاتھوں مجبور لوگ باہر نکلے ۔ پورا سسٹم تہس نہس ہوجائے گا۔ ہم بے ہنگم لوگ ہیں جو ان گدھوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ایک بادشاہ نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا ،تو کمہار سے پوچھا !تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو؟” کمہار نے جواب دیا ! کہ “جو بھی گدھا لائن توڑتا ہے، میں اسے سزا دیتا ہوں، بسی اسی خوف سے یہ سب سیدھا چلتے ہیں۔” بادشاہ نے کہا،کیا تم ملک میں امن قائم کر سکتے ہو؟”کمہار نے حامی بھر لی، بادشاہ نے اسے منصب عطا کر دیا۔ پہلے ہی دن کمہار کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنایا ،کہ “چور کے ہاتھ کاٹ دو۔” جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا ۔اور کمہار کے کان میں بولا ،کہ “جناب یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔” کمہار نے دوبارہ کہا ۔کہ “چور کے ہاتھ کاٹ دو۔” اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی ،کہ “جناب تھوڑا خیال کریں۔ یہ اپنا خاص آدمی ہے۔ کمہار بولا، “چور کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں۔ اور سفارشی کی زبان کاٹ دی جائے۔” اور کہتے ہیں ۔کمہار کے صرف اس ایک فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن قائم ہو گیا۔ہمارے ہاں بھی امن قائم ہو سکتا ہے ۔ مگر اس کے لئے چوروں کے ہاتھ کاٹنا پڑیں گے ۔اور کچھ لوگوں کی زبانیں کاٹنا پڑیں گی ۔اور کچھ لوگوں کی گردنیں ۔ یہ کام صرف صرف جماعت اسلامی ہی کرسکتی ہے۔ باقی سب اقتدار اور مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ھماری مثال ایسے ہونی چاہئے کہ امیدوار کا کریکٹ دیکھ کروٹ دیں۔ ایک امیدوار ووٹ مانگنے کیلئے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہیں 1000 روپے پکڑاتے ہوئے کہا بابا جی اس بار ووٹ مجھے دیں۔بابا جی نے کہا:- بیٹا مجھے پیسہ نہیں چاہیئے پر تمہیں ووٹ چاہیئے تو ایک گدھا خرید کے لا دو۔ امیدوارکو ووٹ چاہیئے تھا وہ گدھا خریدنے نکلا مگر کہیں بھی 40000 سے کم قیمت کوئی گدھا نہیں ملا تو واپس آ کر بابا جی سے بولا :- مجھے مناسب قیمت پر کوئی گدھا نہیں ملا گدھا کم سے کم 40000 کا ہے اس لئے میں آپ کو گدھا تو نہیں دے سکتا پر 1000 دے سکتا ہوں۔ بابا جی نے کہا: چوہدری صاحب مجھے اور شرمندہ نا کرو۔تمہاری نظر میں میری قیمت گدھے سے بھی کم ہے۔ جب گدھا 40000 سے کم میں نہیں ملا۔ تو میں 1000 میں کیسے بک سکتا ہوں، اس لیے اس دفعہ الیکشن میں سوچ سمجھ کر ووٹ دیں۔ اپنی اور اپنے ووٹ کی قدر کروائیں۔قیمے والے نان ۔ بریانی ۔کھوتے کے پلا اور چند سو میں اپنا قیمتی ووٹ مت بیچیں۔ میں نے دو کھوتوں کا قصہ سنایا ہے لیکن ھمارے ملک پر کئی کھوتے مسلط ہیں۔ جو حکومت اور اپوزیشن کو لیڈ کررہے ہیں۔ ماشا اللہ عوام نے بھی کھوتے کی بریانی اور گدھے کا پلا کھا کھا کر اپنا دماغ گدھوں جیساکرلیا ہے۔ حبیب جالب نے صیح کہا تھا کہ یہ جو دس کروڑ ہیں۔ جہل کا نچوڑ ہیں۔ انکی عقل سو گئی ۔ ظلمتوں میں کھو گئی۔ اب تو یہ گدھے چوبیس کڑوڑ سے تجاوز کرچکے ہیں۔ جو بے شعوری میں انکو ووٹ دیتے ہیں۔ صرف ہاتھ ملانے خیریت پوچھنے حال احوال کرنے چائے کی ایک پیالی پلانے پر ضمیر فروخت مت کریں ووٹ امانت ہے اور امانت کے بارے میں یقینا باز پرس ہوگی۔ووٹ کی پرچی ملکی تقدیر اور آپکی آئیندہ نسلوں کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے۔ اسے ایمانتدار۔ دیانتدار۔ محب وطن۔ اور نظریاتی امیدواروں کے سپرد کریں ۔ جو آپکی امانت چند کروڑ میں بیچ کر بے ضمیری اور غداری کے مرتکب نہ ہوں۔ ایسے امیدوار صرف اور جماعت اسلامی کے لوگ ہیں۔ جو نہ بکتے ہیں۔ نہ جھکتے ہیں اور نہ ہی کرپشن کرتے ہیں۔ آپ نے سب کو آزما لیا۔ ایک بار جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کریں ۔ انشااللہ یہ لوگ ملک کی تقدیر بدل دینگے۔ چوروں اور ڈاکوں کو اُلٹا لٹکا دینگے۔ انصاف آپکی دہلیز پر ملے گا،لہٰذا آپکے ووٹ کی ایمانت صرف جماعت اسلامی کیلئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here