ہنری کِسنجر اور بیرونی پالیسی!! !

0
105
کامل احمر

19کتابوں کے خالق اور امریکہ کے خارجہ محکمہ کے سیکرٹری(وزیر خارجہ) ہنری کِسنجر ہماری دانشمندوں اور سیاسی شخصیات کی فہرست میں اول نمبر پر ہیں، صدر نکسن کے دور میں وہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری تھے۔ اور ان سے بے حد متاثر بھی تھے، اپنی نئی کتاب میں جو پچھلے سال جولائی میں منظر عام پر آئی انہوں نے نکسن کو ان الفاظ میں سراہا ہے۔” امریکہ کی بیرونی پالیسی میں نکسن کی لچک داری چاہئے اور چین کے ساتھ اس کی ضرورت ہے ہمیں اس بحث میں جائے بغیر کہ وہ ڈیموکریٹ تھے یا ری پبلکن یہ ضروری ہے کہ انہیں امریکہ کی بہتر خارجہ پالیسی کا نگران سمجھنا چاہئے۔ آج کے عوام ، جنہیں ہم بے بی بوم جنریشن کہیں گے کہ سمجھ میں یہ بات نہیں آئیگی کہ جنگ سے زیادہ امن پسند پالیسی ہی جمہوریت کا حسن نکھارتی ہے۔ امریکہ جو پہلے بھی کولڈوار میں روس کے ساتھ تھا۔ اُسے ریگن کے بعد اس سے دور رہنا چاہئے تھا لیکن یوکرائن کے مسئلے پر ایک بار پھر امریکہ اور روس میں ٹھن گئی ہے۔
نکسن کے علاوہ پانچ بڑے لیڈر ہنری کِسنگر کی پسندیدہ لسٹ میں تھے ان میں جرمنی کے کانریڈینور، مصر کے انور سادات، برطانیہ کی مارگریٹ تھریچر، اور سنگاپور کے لی کو ان یو ہیں۔ لیکن وہ زمانہ اور تھا دنیا میں بڑی کارپوریشن اتنی طاقتور نہیں تھیں کہ وہ اپنا اثر ملک کی بیرونی پالیسی پر ڈالیں اور جو سیاستدان تھے وہ ملک اور عوام کی بہتری کے لئے کام کرتے تھے۔ ذاتی فائدے کے لئے نہیں بائیڈین کے حالیہ وارسا(پولینڈ) کے اور چین کے ماسکو کے دورے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ معاملہ آگے امن سے زیادہ جنگ کا ہے۔ بقول کسنگر کے آج امریکہ کو چارلس ڈیگال کی سوچ کا انسان چاہیئے۔ دوسرے معنوں میں صدر بائیڈین کی پالیسی کو وہ مسترد کرتے ہیں۔ نہ صرف وہ بلکہ ری پبلکن کا کہنا ہے کہ یوکرین کو ضرورت سے زیادہ امداد دی جارہی ہے عوام کی ناپسندیدگی میں مزید چھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے عوام کی اکثریت اس معاملے میں بائیڈین حکومت کی طرف دار نہیں کہ امریکن کی مالی حالت خستہ ہوتی جارہی ہے۔ جس کا اندازہ بائیڈین کو نہیں پچھلے دنوں انہوں کے اپنی تقریر میں ایک آدھ باتوں کے علاوہ تمام باتیں غلط کہیں محسوس ہوا کہ صدر کے مشیر انہیں غلط راستہ دکھا رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا، ”ہم نے معاشی اعتبار سے پچھلے چھ ماہ میں مزید ترقی کی ہے۔ امریکہ کا تعلیمی نظام سب سے معیاری ہے ہم نہیں سمجھتے کہ دنیا میں کوئی چیز ہماری پہنچ سے دور ہے چھوٹے کاروبار کے لئے ملکی معاشی ماحول بہتر ہو رہا ہے۔ امریکہ میں مہنگائی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ امریکہ میں گیس(پٹرول) کی قیمتوں میں1.50گیلن میں کمی آئی ہے۔100ملین( ایک کروڑ) امریکیوں نے نئے کاروبار کی شروعات کی ہیں۔ آخر میں کہا ہمیں محنت کرنے کی ضرورت ہے صدر بائیڈین ایک بار پھر نظرثانی کریں امریکہ کے تعلیمی نظام، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور پیٹرول کی قیمتوں پر چونکہ وہ خود ان تمام چیزوں سے دور ہیں اور شاید ڈیموکریٹک کو کوئی کارڈ دکھا کر یہ سہولتیں ملتی ہو مگر حقیقت سے اس کا تعلق کم ہے۔ البتہ درست بات ایک ہی ہے ”ہمیں محنت کرنی ہے” یہ ایسا ہی ہے جیس کسی پاکستان سے کہو ہمیں محنت کرنی ہے اور کہنے والے ملک کو نوچ نوچ کر کھاتے رہیں ملک فری فال میں ہو تباہی کی طرف، وہاں کی سیاست پر بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی طوائف کے مجرے سے نکلیں تو نیچے کھڑا دلال کہتے میرے ساتھ آئیں گل بائی کو آزمائیں۔
صدر بائیڈین نے دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ میں300سے زائد قانون سازیاں کی ہیں۔ اور وہ ہی بات ہم یوکرین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں کاش وہ کشمیری اور فلسطینی عوام کے ساتھ بھی کھڑے ہوتے۔ ہنری کِسنگر جن کی عمر99سال ہوچکی ہے خارجہ پالیسی کے باوا آدم ہیں نہایت متاثر کن شخصیت ہیں ایسا نہیں ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التعلیم ہیں وہ زمانہ گیا جب بڑی بڑی تعلیم گاہیں، دانشمند تیار کرتی تھیں آج وہ کارپوریٹ لیڈر پیدا کرتی ہیں۔ 31سالہ سام بی فرائڈ جوMITجیسے تعلیمی ادارے سے تعلیم یافتہ تھا۔ پچھلے سال بہا ماس سے بلین ڈالرز(40) فراڈ اسکیم میں گرفتار ہو کر گھر میں قید ہے۔ آج کے دور میں ہم کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتے اخلاقی گراوٹ پھیل چکی ہے جو حرام کمائی کو بھی محنت کی کمائی سمجھتی ہے۔
روس کا بائیکاٹ کرکے امریکہ نے خود کو تنہا کرلیا ہے جرمنی اور انڈیا کی تجارت پہے سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے بہت سے ممالک روس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کے پاس دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔ چین اخلاقی طور پر روس کے ساتھ ہے۔ وہ وہ روس کی عملی مدد نہیں کرے گا کہ ابھی وہ کووڈ کی وبا سے نہیں نکل سکا ہے۔ اسے امریکی صارفین کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ بڑا ملک بڑے مسائل اور صدر بائیڈین کچھ نہیں کر پا رہے بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے گراف کو گرا رہے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن بغیر کسی رکاوٹ کے امریکہ میں گھسے آرہے ہیں اور گورے امریکن کا صبر کا پیمانہ لبریز ہے کہ یہ امریکہ کے بنیادی ڈھانچہ کو خراب کرنے کا باعث بنینگے۔ صدر بائیڈین کی نائب تارکین وطن کے حق میں ہیں پچھلے ہفتہ بتایا گیا کہ ڈاکٹروں نے صدر بائیڈین کو صاف رپورٹ دی ہے انکی صحت کے تعلق ہے۔ بائیڈین80سال کے ہیں اور اس عمر کے شہری کو آٹو انشورنس کارپوریشنز خطرناک ڈرائیور کی لسٹ میں رکھتی ہیں75سال کے بعد اور اس عمر میں لائف انشورنس ملنا ناممکن۔ ہم نے خودکوشش کی جب کہ ہر چیز نارمل ہونے کے باوجود جواب ملا۔ ڈھائی سو ہزار ڈالرز کے لائف انشورنس کا ماہانہ بل13سو ڈالر ہوگا۔ تو کیا صدر بائیڈین کو کوئی مراعات ملیگی انکے لئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ یادداشت کھو رہے ہیں یعنیPIMENTIAکا شکار ہیں۔ انہیں صدارت چھوڑنا پڑیگی اور کمالہ ہیر میں صدر بن جائیگی ہمیں تو یہ مذاق لگتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں جو اب یہ کہ انشورنس والے جنہوں نے ہمارے ڈرائیونگ کے کلین ریکارڈ کے ہوتے ہوئے خطرناک ڈرائیور بنا کر انشورنس بڑھا دی ہے۔ ہم صدر بائیڈین کی توجہ اس طرف دلوائینگے جن کے ارادے2024میں انتخاب لڑنے کے ہیں۔ مقابلے میں صدر ٹرمپ اور فلاریڈہ کے گورنر رون ڈی سان ٹس ری پبلکن ہیں۔ اس کے لئے ڈالرز سے زیادہ کارکردگی اور اچھی صحت کا ہونا ضروری ہے ٹرمپ84سال کی عمر میں نہایت ہی انرجیٹک نظر آتے ہیں سپریم کورٹ بھی انہیں نااہل قرار نہیں دے ان کی کچھ مماقتوں پر ایسا ہمارا کہنا ہے۔ کہتے چلیں کہ صدر بائیڈین کی بیرونی پالیسی سے ایک بار پھر دنیا دو بلاک میں تقسیم ہونے جارہی ہے۔ کیا ہنری کِسنجر صدر بائیڈین کو اس معاملے میں کوئی مشورہ دینگے، ہماری خواہش ہے لیکن اس دفعہ وہ ذرا ڈپلومیٹ ہونگے کہ وہ یوکرین کے صدر زیلینسکی کے خلاف نہیں۔۔۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here