تاریخ ایک اہم موضوع ہے جو اپنی اور دوسری قوموں کی معلومات فراہم کرتا ہے پھر آنے والے وقت میں وہ قومیں فخر کے ساتھ جیتی ہیں اگر انکے پرُکھوں نے ملک اور قوم کا دفاع کیا ہو۔14ویں یا15ویں صدی میں جب توپیں بندوقیں نہ تھیں تو بادشاہ اپنے زور بازو پر ہی بھروسہ کرتے تھے اور اسی زور بازو کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اسلام پھیلا کر حکومت کی تھی جو اسلام کے لئے فروغ تھا اگر پرکھوں نے بہادری اور کامیابی کی مثالیں چھوڑی ہیں تو نئی نسل کے دل ودماغ پر یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ترک قوم ترکی میں ہم نے ایک نوجوان سے پوچھا جیسے انگریزی آتی تھی۔ تمہیں کس بات پر فخر ہے اس نے مختصر جواب دیا ہمارے پاکھوں نے ایک کے بعد ایک دشمن سے مقابلہ کرکے ان کا خاتمہ کیا اور یہ بات ہم نہیں بھول سکتے(ڈرامہ سیریل ارطغرل دیکھیں) لیکن کچھ ایسے بادشاہ بھی تھے جنہیں اپنا نام بنانے کی جستجو تھی لیکن یہ صرف اس لئے کہ انہیں اپنے زور بازو اور شمیشر بازی پر اعتماد تھا۔ جب ظہیرالدین بابر سمرقند کے چکر میں اپنی آبائی ریاست فرغانہ(موجودہ ازبکستان کی ریاست) کھو بیٹھا تو دلبرداشتہ ہوگیا تھا لیکن اس نے افغانستان کی طرف رخ کرکے کابل پر قبضہ کرلیا۔ وہاں سے اس نے لشکر تیار کیا اور ہندوستان میں گھس گیا اسی دوران لشکر میں شریک جوانوں نے جو دوسرے صوبوں کے تھے آپس میں بول چال کے لئے عربی، فارسی ملا کر زبان بنا ڈالی جیسے لشکر زبان کہا جاتا تھا جو بعد میں دلی میں آکر اردو بن گئی اور آج تک پورے ہندوستان میں بولی جاتی ہے پاکستان سمیت سوائے پنجاب اور اندرون سندھ کے۔ 1947میں پاکستان وجود میں آیا اور یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا۔ قائداعظم نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ اسلامی ریاست بنے کی البتہ اسلامی طرز حکومت ہوگی۔ آج ہم سوچتے ہیں ہمارا سلسلہ کہاں جاکر ملتا ہے اور ہم نے تاریخ کیا تیر مارے ہیں۔ تو جواب زیرو ملتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریز کی دو سو سال کی غلامی نے ہندوستان کے ہندو اور مسلمانوں نے تو جگا دیا اور اُن کے خلاف سکھ ہندو اور مسلمان ہوگئے۔ غور کریں اس کو زور گاندھی نے دیا جب انہیں گوروں نے ٹرین سے باہر نکال دیا تب گاندھی نے تہیہ کیا کہ وہ انڈیا آکر انگریزی کو باہر نکالے گا اور وہ کامیاب ہوا۔ گاندھی رضا مند نہ تھا کہ انڈیا کی تقسیم ہو۔ انکے ساتھ اس مشن میں مولانا ابوکلام آزاد تھے جو جانتے تھے کہ پاکستان میں چار پانچ قومیں اپنی اپنی زبانوں کے ساتھ بستی اور حکمرانی کرتی ہیں۔ پشاور میں ولی خان، سندھ میں تالپور پیرپگاڑا بلوچستان میں میر احمد یار خان۔ 14اگست کو خان نے بلوچستان کو خودمختار قرار دے دیا تھا۔ پنجاب میں کئی حکمران تھے مہاراجہ پٹیالہ سمیت اور آج کی تاریخ میں آتے آتے سب کے سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ پنجاب تقسیم کے بعد سے آنکھیں بند کرکے ناانصافیاں کر رہا ہے ہر شعبہ میں کہ کہنا پڑتا ہے وہ پورے پاکستان پر قابض ہے جیسا کہ آج کے حالات گواہ ہیں یہ بات جاوید چودھری نے اپنے کالم میں تفصیل سے لکھی ہے کہ پاکستان کو تباہ کرنے میں پنجاب کا ہاتھ ہے اس لئے کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو ہر چیز پنجاب کے ہاتھ میں تھی ریلوے سے لے کر شہری انتظامیہ، اعلی عہدوں کے لئے بھی پنجاب میں جانا پڑتا تھا۔ بیورو کریسی کا آغاز یہیںسے ہوا تھا جو زور پکڑ کر پورے پاکستان پر حاوی تھی۔ یہ1954کی بات ہے کہ پتہ چلا ریلوے کا ہر اسٹیشن بکتا ہے، اسٹیشن ماسٹر کو اسکی سنسیرٹی پر اسٹیشن نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر کراچی حیدرآباد ملتان، لاہور کی بولی بڑی ہے اگر کسی کو پروموشن چاہئے تو وہ لاہور(ہیڈکوارٹر) جاکر ہاتھ گرم کرے۔ کلرک بتا دیتا تھا کہ کس اسٹیشن کی کیا قیمت ہے اور یہیں سے رشوتوں کا رواج پڑا اور قابلیت کو دفن کر دیا گیا اور اب قابلیت کی بنا پر کسی کو ملازمت نہیں ملتی۔ اور گرتے گرتے ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ نہ تین میں اور نہ تیرہ میں۔ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے جو عوام سے جمہوریت کے نام پر لیا جارہا ہے جس کی رکھوالی کمانڈر انچیف جنرل عاصم منیر کر رہے ہیں اور اپنی بنائی حکومت میں جو سند یافتہ چور ڈاکو ہیں ان کو سہولت دے رکھی ہے جیسا چاہو کرو۔ بس یہ کہPTIکو سڑکوں پر نہ آنے دو جس کے تحت حالیہ 24نومبر کو اسلام آباد کو ٹینکر لگا کر بند کر دیا گیا اور لوگوں کو شئے دی گئی ہمت ہے تو آئو یعنی چیلنج دیا گیا۔ اور دوسرے دن میڈیا پر ہر جگہ سکون ہی سکون دکھایا گیا۔ اُسی رات کو سڑکوں کو خالی دکھایا گیا اور نون لیگ کا ایک شخص سڑک کے کنارے بتا رہا تھا کہPTIکا جلوس نکل رہا ہے جس میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے اور اُسےPTIکے لیڈر، لیڈ کر رہے ہیں۔ لوگوں کے ضمیر اس درجہ مر جائیں تو شہ ہوتا ہے انکے انسان ہونے پر حکومت میں جو بھی بیٹھے ہیں چاہے وہ صوبائی ہو یا مرکزی ہر شاخ یہ الو بیٹھا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غلیظ جابل بیٹھا ہے۔ الّو تو بڑا ہوشیار پرندہ مانا جاتا ہے۔ اور یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ یہ سب پنجاب کر رہا ہے اور آج سے نہیں بہت پہلے سے تو ابوالعلام آزاد نے کیا غلط کیا تھا اور ہمارے الفاظ اتنے وزنی نہیں جو انقلابی شاعر حبیب جالب کے تھے جنہوں نے نظم دستور لکھی تھی ضیاء الحق کے دور میں اس کا یہ شعر پڑھ لیں”اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا ، حبیب جالب نے وہ سب کچھ لکھ دیا ہے جو پاکستان میں ایوب خان کے دورر سے ہو رہا ہے اور اب عروج پر ہے۔ کیا ہم نے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیا بس سمجھ لیں کچھ اچھا کرنا چھوڑ دیا۔ پرانے وقتوں میں بادشاہ لوگ تلوار بازی کے ساتھ شہزادوں کو تعلیم اور تربیت بھی دلواتے تھے اور انکے لئے معّلم اور جہاندیدہ شخص کو چنتے تھے۔ حیرانی ہوگی آپ کو یہ جان کر کہ اکبر بادشاہ نے اپنے پڑ پوتے کے لئے۔ شیخ چّلی کو چُنا تھا عرف عام میں اُسے مسخرہ سمجھا جاتا ہے لیکن اکبر کے نورتنوں میں شیخ چلّی نہایت ذہین رتن تھا۔ مزاح اور فوری جواب کے ساتھ اگر مغل خاندان میں جس کی بنیاد بابر نے رکھی تھی بلا کا ذہین تھا جس نے اپنی طاقت کا استعمال کیا اور انڈیا آکر پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور آئندہ331سال ہندوستان پر حکومت کی(1526سے1857) اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی فوج میں شیر شاہ سوری نامی سردار بھی ہے۔ جو اس کے مرتے ہی ہندوستان پر قبضہ کر لے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ یہ تمام لوگ تاریخ بنا کر چلے گئے یادگاریں چھوڑ گئے جسے دیکھنے دنیا بھر کے لوگ آتے ہیں ہم کیا چھوڑ کر جارہے ہیں؟ ایک بکھرتا اور دفن ہوتا پاکستان جو پنجاب سنبھال نہ سکا۔ اور تاریخ جو ہم لکھ رہے ہیں یہ تاریخ نہیں!!! ۔
٭٭٭٭٭٭