امام احمد رضا کی فقید المثال علمی وسعت !!!

0
40

آخری قسط
پہلے آپ یہ ذہن نشین فرمالیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مقدس کے ساتویں پارے، سورہ انعام کی انسٹھویں آیت میں ارشاد فرمایا ”وعندہ مفاتیح الغیب لایعلمھا الّاھو” اور چوبیسویں پارے سورہ زمر کے ترسٹھویں آیت میں ارشاد فرمایا”لہ مقالید السموات والارض”۔ پہلی آیت کا ترجمہ ہے” اور اس کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی انہیں وہی جانتا ہے”۔ دوسری آیت کا ترجمہ ہے”اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔”
یاد رہے کہ مقلاد کی جمع مقالید اور مفتاح کی جمع مفاتیح ہے۔ دونوں کا معنی ہے کنجیاں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مفاتیح غیب کی کنجیوں کو کہتے ہیں اور مقالید شہادت کی کنجیوں کو۔ سیدی اعلیٰ حضرت کس قدر حسین پیرائے میں اور عشق رسول میں ڈوب کر ان دونوں آیتوں میں جلوہ بار لفظ مفاتیح اور مقالید سے رسول گرامی وقارۖ کے لیے غیب ثابت کر رہے ہیں کہ ربّ لم یزل کی بارگاہ سے آپ کو غیب وشہادت کی کنجیاں عطا کر دی گئی ہیں لہٰذا حضور اکرم ۖ کے حکم سے کوئی شے باہر نہیں۔
سیدی اعلیٰ حضرت تشریحاً فرماتے ہیں کہ دار دنیا شہادت یعنی ظاہر ہے اور دار آخرت غیب یعنی پوشیدہ ہے۔ مفاتیح کا اولحرف ”میم” اور آخری حرف ”ح” اور مقالید کے اول حرف ”میم” اور آخری حرف ”دال” کو مرکب کرنے سے رسول دو عالمۖ کا نام اقدس ظاہر ہوتا ہے۔ م ح م د یعنی محمدۖ۔ اس سے یا تو اس طرف اشارا ہے کہ غیب وشہادت کی کنجیاں سب آپ کو دے دی گئی ہیں۔ اب کوئی شے آپ کے حکم سے باہر نہیں۔ یا یہ آیتیں اس طرف مشیر ہیں کہ مفاتیح ومقالید یعنی غیب وشہادت سب حجرہ خفا میں مقفل تھیں۔ وہ مفتاح یا مقلاد جن سے ان کا قفل کھولا گیا وہ ذات بابرکات ہے باعث تخلیق کائنات جناب محمد رسول اللہۖ کی۔
حق فرمایا امام الکلام نے کلام الامام میں!
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here