عمران خان کی رہائی
فوری الیکشن !!!
پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک جمہوری حکومت خود اپنے ہاتھوں سے ملک کو تباہ کر رہی ہے ، جیل میں قید شخص کی کال پر اگر پاکستان میں اتنے لوگ باہر نکل آتے ہیں کہ حکومت کودارالحکومت میں کنٹینرز لگانا پڑ جائیں تو انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے اور اخلاقی طور پر خود اقتدار سے الگ ہو جانا چاہئے ، جلسے ،جلوسوں سے پاکستان برباد ہو رہا ہے ، لوگ تو مجبور ہر کر جلسے کر رہے ہیں ، فوج اور حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی ترقی و سلامتی کیلئے عمران خان کو جیل سے باہر نکالیں اور فری اینڈ فیئر الیکشن کرائیں تاکہ عوامی حکومت آئے ، پی ٹی آئی، فوج اور حکومت تینوں ہی موجودہ صورتحال سے تنگ ہیں ،اس جنگ زدہ ماحول سے صرف اور صرف پاکستانیوں اور پاکستان کا نقصان ہو رہا ہے ، فوج اور حکومت کو تدبر سے کام لینا چاہئے ۔اسلام آباد پہنچنے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاجی قافلے میں شامل کارکنان کی قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے جھڑپوں کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے۔فوج کی جانب سے مظاہرین پر گولی چلانے کے حکم کے بعد سرکاری طور پر 6افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے ، اس دوران اسلام آباد کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں کے حکام کے مطابق وہاں چھ افراد کی لاشیں لائی گئیں ہیں جنھیں گولیاں لگیں ہیں جبکہ 50سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں ۔پی ٹی آئی کارکنان تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بلاخر تیسرے دن کی دوپہر اپنی منزل ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں تاہم یہاں تک آنے والے کارکنان کی پولیس کے ساتھ چھڑپیں بھی ہوئیں ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کو ڈی چوک سے منتشر کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔علی امین گنڈاپور بھی بلیو ایریا میں کارکنان کے ہجوم میں موجود ہیں۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی جاری ہے۔تقریباً پانچ ہزار کارکنان جی ایٹ سے ایف سکس (شہیدِ ملت سیکرٹریٹ) تک پھیلے ہوئے ہیں۔یہ کارکنان آس پاس کے علاقوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور جیسے ہی پولیس کی کوئی گاڑی نظر آتی ہے یہ اس کے پیچھے بھاگ کر اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کئی افراد احتجاج کے شرکا میں کھانا اور پانی بھی تقسیم کرتے نظر آئے۔بلیو ایریا، ایف سکس اور ایف سیون کے علاقوں میں مارکیٹں اور دکانیں مکمل بند ہیں اور کاروبارِ زندگی معطل ہے۔عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کی کال دیے جانے اور توشہ خانہ کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد سے بشریٰ بی بی سیاسی منظرنامے پر کسی حد تک متحرک دکھائی دی ہیں۔اس احتجاج کے پس منظر میں کچھ دن قبل ہی بشریٰ بی بی کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ‘عمران خان جب ننگے پاؤں مدینہ شریف گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہو گئیں کہ یہ تم کیا اْٹھا کر لے آئے ہو۔ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو، ہمیں یہ نہیں چاہیے۔اس ویڈیو بیان کے بعد بشریٰ بی بی کو سیاسی و حکومتی حلقوں کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اْن کے اس بیان کو پاکستان اور سعودی عرب کے ‘تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش’ قرار دیا تھا۔سابق خاتون اول نے اپنے اس خطاب میں مقتدر حلقوں کو مخاطب کر کے عمران خان کی رہائی سے متعلق بھی ایک پیغام دینے کی کوشش کی تھی اگرچہ بشریٰ بی بی ماضی قریب میں واضح کر چکی ہیں کہ اْن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ سیاست میں آنا چاہتی ہیں اور وہ یہ سب کچھ صرف عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے ان کا پیغام پہنچانے کے لیے کر رہی ہیں تاہم سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ میں ان کے متحرک کردار نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا یہ اْن کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہے یا وہ کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے عمران خان کی کمی کو پورا کر رہی ہیں؟دوسری طرف ملک میں انتشار اور انارکی کے باعث ابتر معیشت مزید تنزلی کا شکار ہوئی ہے ، پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ریکارڈ کیا گیا اور کاروبار کے دوران انڈیکس میں لگ بھگ 3900 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی جس کے بعد اس کا انڈیکس 94100 کی سطح تک آگیاجبکہ اس صورتحال میں سکولوں ، یونیورسٹیوں سے غیر حاضر رہنے والے بچوں کا مستقبل کا بھی دائو پر لگا ہے ، اکثر یونیورسٹیوں میں امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد ، راولپنڈی کے تعلیمی اداروں میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے ، ایسی صورتحال میں حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے تشدد، گولی مارنے کی پالیسی کو ختم کر کے ، مذاکرات، محبت اور امن سے معاملات کو آگے بڑھانا چاہئے تاکہ سب کا فائدہ ہو، آخری اطلاع آنے تک ڈی چوک میںبہت خون خرابا ہوا ہے ، بہت سے افراد کی لاشیں گری ہیں ، حکومت کو چاہئے کہ اب معاملات کو پر امن طریقے سے آگے بڑھائے ، ملک مزید کسی سانحہ کا شکار نہیں ہو سکتا ہے
٭٭٭