اسلام آباد (پاکستان نیوز)نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملکی معیشت آئی سی یو میں چلی گئی ہے، ڈالر تاریخ میں پہلی مرتبہ 200کی نفسیاتی حد عبور کر گیا ہے ، ہر روز ڈالر کی قدر میں اضافے سے ملک پر قرضوںکا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے ، موجودہ حکومت مشکل ترین حالات کے باوجود ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے کو 2023 تک توسیع دینے کے لیے کوشاں ہے ، دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی فوری الیکشن کی طرف زور دینے لگی ہیں، متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو پیغام پہنچایا گیا ہے کہ ملک کو فوری الیکشن کی طرف جانا چاہئے کیونکہ ملکی حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ترین ہوتے جا رہے ہیں ، ایم کیو ایم کے مطابق الیکشن سے قبل نئی حلقہ بندیاں ، مردم شماری ضرور ی ہوگئی ہے ، معاشی چیلنجز کے بعد سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے گذشتہ روز کے فیصلے کے بعد حکومت کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور فوری انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔اس حوالے سے حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے وزیراعظم اور حکومتی نمائندوں کو ملاقات میں نئے انتخابات کے حوالے سے اپنے موقف سے آگاہ کر دیا۔ایم کیو ایم کی جانب سے وزیراعظم اور اہم حکومت نمائندوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان فوری الیکشن سے قبل نئی مرد شماری اور نئی حلقہ بندیاں چاہتی ہے۔ایم کیو ایم نے حکومت کے سامنے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئے الیکشن قبول ہوں گے۔ایم کیو ایم کے مطابق حکومت کو یہ بھی پیغام دیا گیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہر مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور مشکل فیصلے کیے جائیں، کچھ عرصے بعد ریلیف بھی ملے گا۔ایم کیو ایم ملک اور جمہوریت کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہے۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حکومت نئی مردم شماری کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔قبل ازیں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ جلد الیکشن کے لیے تیار ہیں اور یہی مسئلے کا حل بھی ہو سکتا ہے۔انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس دفعہ الیکشن میں پالیسی نیوٹرل رہی تو ہم اپنی چھینی گئی 14 سیٹیں واپس جیت لیں گے،دوسری جانب پاکستانی معیشت آئی سی یو میں چلی گئی ہے ، ڈالر کے تاریخی سطح پر پہنچنے کے بعد ملک پر قرضوں کے بوجھ میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے ، مبصرین کے مطابق ماضی وحال کی حکومتیں مالی خسارے میں کمی، سرکاری اداروں میں اصلاحات، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بتدریج کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار ملک پاکستان کی نئی حکومت آخری سانسیں لیتی معیشت بچانے کے لیے اپنی پیشروحکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔پاکستانی سرکاری وفد دوحہ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے نمائندوں کیساتھ ملکی معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اہم مذکرات کر رہا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی اقتصادی ٹیم کی کوشش ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے فوری طور پرکم ازکم ایک ارب ڈالر کی پہلے سے طے شدہ قسط حاصل کر لے تاہم ملک میں اقتصادی اصلاحات کی سست رفتار کی وجہ سے حکومتی وفد کے لیے آئی ایم ایف کے نمائندوں کو قائل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سربراہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ لگ بھگ تیس برس تک وابستہ رہنے والے معیشت دان ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومتیں گزشتہ 75 سالوں سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔ندیم الحق نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پرگھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے 2019 میں بیمار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا تھا تاہم تحریک انصاف پاکستان کی حکومت عوام کو دی جانے والی تیل اور بجلی کی سرکاری سبسیڈیز کوختم نہیں کر پائی اور نہ ہی محصولات کی وصولی کو اس ہدف تک پہنچا سکی، جس کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا تھا۔اسی صورتحال کے سبب آئی ایم ایف کے اس پروگرام کا ابھی تک بھی مکمل نفاذ نہیں ہو سکا۔ پاکستان کو اب تک صرف تین ارب ڈالر مل سکے ہیں اور اس معاہدے کا اختتام رواں برس ہونا ہے۔ موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اس معاہدے کو جون 2023 تک توسیع دلوا سکے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں فریقین کوئی ‘درمیانی راستہ’ ڈھونڈ لیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی وہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کر لے کہ ملکی سیاسی صورتحال اور آئندہ انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے کچھ رعایات بحال رکھنے کی اجازت مل جائے۔ڈاکٹر ندیم الحق نے بتایاکہ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زمینی حقائق کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھا تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔ ماہر معاشی امور ندیم الحق نے مزید کہا کہ حکومتیں مالی خسارے میں کمی نہیں لا سکیں اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی گئی ہیں، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بھی بتدریج کمی نہیں لائی گئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لیے لیکن پھر خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔ ڈاکٹر ندیم کے مطابق بھارت نے 1991 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا،اپنا سونا بیچ کر قرض کی رقم واپس کی اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا، اسی طرح جنوبی کوریا اور ویت نام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے بعد آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کیا اور پھر اسے کبھی نہیں پکارا۔پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر جون 2020 ء کے بعد سے اب تک کی سب سے نچلی سطح 10.3 ارب ڈالر تک آ چکے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدرمیں ریکارڈ گراوٹ اور نتیجہ افراط زر کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کو مہنگائی سے بدحال کر رکھا ہے۔مبصرین کے مطابق ایک ہفتے تک دوحہ میں جاری رہنے والے مذاکرات مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے، جہاں اسے ایک جانب آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا ہو گا اور دوسری جانب آئندہ انتخابات سے قبل عوام کو تیل و بجلی پر دی جانے والی رعایتیں ختم نہ کرنے کے چیلنج کا سامنا بھی ہو گا۔