واشنگٹن (پاکستان نیوز)سی آئی اے کے سابق آفیسر کیون شپ نے امریکہ کی جانب سے لڑی جانے والی ویت نام ، عراق اور افغانستان کی جنگوں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا ، سینئر بش اور جونیئر بش نے اپنے تیل کے کاروباری کو بڑھاوا دینے کیلئے سی آئی اے کو استعمال کیا جس نے جھوٹی رپورٹس کانگریس میں دکھا کر حملوں کی منظوری لی ، آج بھی امریکہ کی سینکڑوں کمپنیاں عراق اور ویت نام میں تیل کے ذخائر پر قابض ہیں جہاں سے ٹنو ں کے حساب سے تیل کی سپلائی کی جا رہی ہے ، امریکہ نے جب بھی کسی ملک پر حملہ کیا، اس میں کہیں نہ کہیں ذاتی مفادات کارفرما رہے ہیں جوکہ بہت کم نمایاں ہوتے ہیں ، سی آئی اے کے سابق آفیسر کیون شپ نے سوشل میڈیا ویب سائٹ کو انٹرویو کے دوران ایسے الزامات کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے ،سابق سی آئی اے آفیسر کی انٹروویڈیو یوٹیوب پیج ”نائٹ آف لائٹ”شیئر کی گئی ہے جوکہ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ سی آئی اے نے کس طرح جھوٹی رپوٹوں کے ذریعے ان جنگوں کا آغاز کیا جس میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔سی آئی اے کے سابق آفیسر کیون شپ کے مطابق ویت نام اور عراق پر حملوں کی وجوہات خفیہ تھیں لیکن کانگریس کو سی آئی اے کی جانب سے جھوٹی رپورٹ اور ڈاکومنٹری دکھائی گئی جس میں امریکی بحری بیڑوں کو نشانہ بناتے ہوتے دکھایا گیا جوکہ حقیقت نہیں تھی ، ویت نام کی جنگ میں 50ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے اسی طرح سینکڑوں شہری ،خواتین اور بچوں کا خون بہایا گیا اس کے بعد عراق جنگ کا محاذ شروع کیا گیا ،جس میں پانچ لاکھ عراقی لوگ مارے گئے ، 25ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور صدر بش نے واضح انداز میں کہا تھا کہ انہیں عراق سے کوئی ایٹمی ہتھیار دریافت نہیں ہوئے ، امریکی کانگریس کو گمراہ کر کے دو ممالک پر حملہ کیا گیا ۔اسی طرح نائن الیون کا ڈھونگ رچا کر افغانستان کو ہدف بنایا گیا جس کے بعد باری پاکستان کی تھی۔واضح رہے کہ امریکہ نے افواج کے افغانستان سے انخلا کے لیے 14بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ، اس میں سے زیادہ تر رقم امریکی فوج کے لیے ادا کی گئی، جس نے انخلاء کی پروازیں اڑائیں اور دسیوں ہزار افغانوں کو کئی مہینوں تک فوجی اڈوں پر رکھا جب وہ امریکی رقم پہنچ گئے افغانوں کے فوجی اڈے کے کیمپوں سے نکلنے کے بعد انہیں دوبارہ آباد کرنے کے لیے بھی گئے۔دریں اثناء انکل سام نے 2021 کے موسم گرما میں طالبان کے قبضے کے بعد سے 3 بلین ڈالر سے زیادہ افغانستان بھیجے ہیں، کیونکہ بائیڈن انتظامیہ طالبان کو برقرار رکھے بغیر بکھرے ہوئے ملک میں انسانی ہمدردی کی کوششوں کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے۔انسپکٹر جنرل جان سوپکو اور ان کی ٹیم نے مصیبت زدہ ملک میں امریکی کوششوں کے بارے میں اپنی تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ میں کہا کہ امریکہ افغان عوام کے لیے سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے۔جنگی کوششیں ختم ہونے کے بعد، مسٹر سوپکو اب افغانستان میں افراتفری کی طرف جا رہے ہیں اور امریکہ اس کے بارے میں کیا کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے اخلاقی قانون کے ساتھ جبر کی اپنی مہم کو ”تیز” کر دیا ہے جو خواتین کی آزادی کو محدود کرنے والی بدمعاش حکومت کی بہت سی پالیسیوں کو باقاعدہ بناتا ہے۔ قانون حکومت کی اخلاقیات پولیس کو غیر معمولی اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ سمجھے جانے والے خلاف ورزی کرنے والوں کو نتائج فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ امدادی گروپوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور 80 سے زائد پروگراموں نے کام بند کر دیا ہے۔2021 کے موسم گرما میں افراتفری والے فوجیوں کے انخلاء کے دوران امریکی فضائیہ نے ہزاروں افغانوں کو نکالنے کی کارروائیوں کے لیے قیمت کا احاطہ کیا۔ انسپکٹر جنرل نے کہا کہ اس میں 8.7 بلین ڈالر آپریشن الائیس ویلکم کے لیے مختص کیے گئے ہیں اور 5.3 بلین ڈالر اس کے جانشین آپریشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ٹیکس دہندگان نے اگست 2021 سے اب تک ملک میں موجود افغانوں کے لیے 3.2 بلین ڈالر کی انسانی امداد بھی دی ہے۔ اور انکل سام نے بھی افغان سینٹرل بینک کے اکاؤنٹ کو بھرنے کے لیے 3.5 بلین ڈالر کی منظوری دی ہے۔مسٹر سوپکو 2012 سے افغانستان میں امریکی تعمیر نو کی کوششوں کو دیکھ رہے ہیں۔