اسلام آباد(پاکستان نیوز) سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نیپاناما کیس کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے خاموشی توڑتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل میں تعصب اوررازداری عیاں کی ہے۔ حسین نواز نے 2006 کے بعد سے نوازشریف کی تنخواہ کی وصولی کا ثبوت مانگتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کمپنی تو بہت پہلے ہی بند ہوچکی تھی تنخواہ کا تو سوال ہی نہیں بنتا تھا۔ کہا کہ سابق سپریم کورٹ کیپاناما کیس کے سابق جج جسٹس اعجاز افضل خان نے نواز شریف کی مبینہ تنخواہ کے حوالے سے حقائق کو غلط بیان کیا۔ جے آئی ٹی کے انتخاب میں تنازع تھا، ججوں نے چنے ہوئے لوگوں پر مشتمل جی آئی ٹی بنا کرقانونی عمل کا مذاق بنایا گیا۔میرا فوٹو جان بوجھ کر تذلیل کیلیے لیک کیا گیا، نوازشریف کا دبئی اقامہ قانونی انتظام تھا کرپشن نہیں تھی۔ ٹیلی فونک انٹرویو میں حسین نواز نے جسٹس اعجاز افضل خان کے پاناما فیصلے سے متعلق دعووں کے بارے میں سوالات کا جواب دیا۔ پچھلے ہفتے، جسٹس اعجاز افضل نے اس نمائندے کے ساتھ بات کی، جس میں انہوں نے اپنے فیصلے کی تفصیلات پہلی بار ریٹائرمنٹ کے بعد بیان کیں۔ انہوں نے کیس کے پس منظر، جے آئی ٹی کے ارکان کی تشکیل اور انتخاب کے بارے میں بات کی اور کیس کے فوائد و نقصانات پر روشنی ڈالی۔نیچے دی گئی گفتگو اس نمائندے اور حسین نواز کے درمیان کی گئی تفصیلی گفتگو ہے۔ حسین نے ریٹائرڈ جج اعجاز افضل کے اس اعتراف کو “جانبداری اور قانون کے بنیادی اصولوں کا مذاق” قرار دیا، جس میں انہوں نے جے آئی ٹی کے منتخب کردہ افسران کو واٹس ایپ کالز کے ذریعے شامل کیا۔ انہوں نے کہا “اگر شفافیت مطلوب تھی تو انہیں خود شفاف ہونا چاہیے تھا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل میں دھندلی اور خفیہ واٹس ایپ کالز کے ذریعے کیا وجہ تھی؟ اگر انہیں جے آئی ٹی میں ایماندار اور شفاف افراد چاہیئے تھے، تو وہ کھلی عدالت میں کہہ سکتے تھے اور کوئی ان کو روک نہیں سکتا تھا۔