”افغانستان میں سے امریکی افواج کے بعد کا منظر!”

0
161
پیر مکرم الحق

امریکی صدر جوبائیڈن اپنے فیصلے پر اٹل ہیں کہ11ستمبر2021 سے پہلے امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے۔بلکہCNN(ٹی وی چینل)نے تو کہا ہے کہ آثار یہ ہیں کہ فوجی الخلاء کا ٹارگٹ شاید30اگست2021ء تک حاصل ہو جائے۔طالبان اس فوجی انخلاء کو اپنی جیت سمجھ کر خوشیاں منانے میں مصروف ہیںلیکن ان نادانوں کو پتہ نہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں جھک نہیں ماری فوج کی موجودگی تو حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔تحقیقی ماہرین جن مختلف علومیات کے سائنسی ماہرین نے اپنی ریسرچ مکمل کرلی ہے۔جس میں افغانستان کا مکمل جیالوجیکل سروے بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔افغانستان کے پہاڑوں، غاروں اور زیرزمین راستے بشمول پانی کے ذخائر کی مکمل تفصیل ریکارڈ کرلی گئی ہے۔گوریلا جنگ میں افغانوں کا ناقابل شکست ہونے کی بڑی وجہ یہی زیرزمین وسائل تھے جن کا باہر سے آنے والوں کو علم نہیں ہوتا تھااور افغانی دشمن فوجوں کے خلاف اپنی گوریلا جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار سرپرائز(SURPRISE)فیکٹر کو استعمال کرتے تھے۔یعنی زیر زمین غاروں میں چھپنے کے بعد زیر زمین راستوں کے ذریعے اچانک حملہ کرکے دشمن پر اس طرح اور اس وقت وار کرنا جب دشمن حملہ کے لئے کسی طرح تیار نہ ہو۔امریکی افواج نے جس علم میں بڑی تحقیق اور مشق کی ہے وہ حکمت عملی یا(STRATEGY)ہے۔ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی نہایت جدت پیدا کرتے ہوئے دشمن پر حملہ کرنے کے ساتھ کھوج لگانے کی ٹیکنالوجی کو بھی کافی بہتر کرلیا گیا ہے۔اگر طالبان اس خوش فہمی میں رہے کہ امریکی افواج تو چلی گئیں اب وہ جوچاہے کہ پائیں گے تو یہ انکی بڑی بھول ہوگی۔اب آمنے سامنے ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہوگی۔بلکہ اب سیٹلائیٹ(SATELITE)جنگ ہوگی۔طالبان نے اگر ہم گڑ بڑ کی تو وہاں سے اڑائی ہوگی اور دشمن نظر بھی نہیں آئیگا۔جی ہاں، ابتدائی دور میں دہشتگردی بڑھے گی اور اس کے اثرات پڑوسی ممالک بشمول پاکستان پر پڑینگے کیونکہ طالبان ایک منظم گروہ نہیں ہے یہ کئی ٹکڑوں میں بنے ہوئے ہیںاور انکے کوئی مشترکہ مفادات نہیں ہیں۔30 اگست 2021ء کے فوری بعد دھماکے اور حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوگالیکن پھر اس ماحول میں تنائو کو محسوس کرتے ہوئے طالبان کے بڑے بڑے گروہ اس عمل کی روک تھام کرنے کی کوشش کرینگے۔جس سے طالبان گروہوں کے باہمی اختلافات میں اضافہ ہوگا۔خصوصی طور پر پاکستانی طالبان اور افغانستان میں مقیم طالبان کے درمیان جھڑپیں ہونے کا قوی امکان ہے۔اس ٹکرائو یا رضا دہ میں کافی علاقائی دینی علماء کے مارے جانے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔طالبان کا مشترکہ دشمن امریکہ جب علاقہ میں نہیں رہے گاتو پھر یہ سارے گروہ اپنی اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش شروع کردیں گے۔ایک طویل عرصہ کی جنگوں نے افغان لوگوں کو جنگ کا عادی بنا دیا ہے۔امریکہ چلا گیا تو کیا ہوا؟آپس میں تو لڑ سکتے ہیںاور یہی کام ہوگا۔عوام کا وہ حصہ جو طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا وہ بھی امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد اپنے اور ملک کے مستقبل کے متعلق فکرمند ہوگااور انار کی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کریگا۔افغانستان میں امریکہ نے کافی ترقیاتی کام اور تعلیم کو عام کیا ہے۔سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے۔طالبان اگر ان حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں کرپائے تو افغان عوام مجبوراً متبادل سیاسی جمائتوں کو آزمانے پر غور کرسکتی ہے۔مسلسل حالت جنگ میں رہنے والے طالبان ملکی معاملات کو منظم طریقہ سے چلانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔پاکستان کے ساتھ ہندوستان بھی کافی مشکلات کا سامنا کریگاکیونکہ طالبان کشمیر میں ہندوستانی مظالم پر بھی برہم ہیں اور امریکہ کے بعد وہ کہیں ہندوستان کو اگر مشترکہ دشمن بنا دیں تو مودی سرکار کو وختہ پڑ سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here