پنجاب پولیس کی رانیاں ،شہزادیاں اور مس بٹ!!!

0
3
خالد ایچ لودھی
خالد ایچ لودھی

ہر معاشرے میں عورت کا کردار ہمیشہ ہی سے اہم رہا ہے، عورت بطور ماں اپنے گھر میں اپنے بچوں کی تربیت اور دیگر گھریلو امور کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح آج کل جدید دور میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ اپنا عملی کردار ادا کر کے معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ عورتوں کا تعمیری کردار معاشرے میں نکھار پیدا کرنے کا موجب اس بنا پر بن رہا ہے کہ آج سیاست معیشت سفارت اور ثقافت جیسے شعبوں کے ساتھ ساتھ قومی دفاع، صحت اور تعلیم کے میدان میں بھی رفتہ رفتہ عورتوں کا اہم کردار جدید تقاضوں کے عین مطابق ہو چلا ہے۔ خاص طور پر آج کے دور میں صحافت سفارت اور سیاست کے میدان میں عورتوں نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت علی خان جیسی سرگرم خواتین کے بعد پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا پاکستانی سیاست میں منفرد کردار خواتین کیلئے نئی راہیں ہموار کر گیا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید بطور وزیر اعظم پاکستان دو مرتبہ پاکستان کی سیاست میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ عالمی سطح پر بھی ان کی شخصیت کو منفرد حیثیت حاصل رہی ہے خاص طور پر مسلم امہ میں انہیں کلیدی کردار کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے بطور وزیر اعظم 15 جون 1994 کو ویمن پولیس سٹیشن کی بنیاد رکھی۔ یہ پولیس سٹیشن اسلام آباد کے مرکز جی G77 میں قائم ہوا تھا۔ اسلام آباد کے اس وقت کے اسپکٹر جنرل آف پولیس اسد محمود علوی نے اس ضمن میں بھر پور کردار ادا کیا۔ آئی جی اسلام آباد نے خصوصی تقریب کا اہتمام کر کے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اس موقع پر مدعو کیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 1994 سے ہی پاکستان کے اہم قومی اداروں میں خواتین کو اہم ذمہ داریاں سوچنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تو جوان خواتین کو CSS کے امتحانات میں خصوصی کوئلے کے تحت جگہ دی جانے گئی اور اس طرح خواتین کو اعلی کارکردگی قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر وزارت خارجہ پولیس FER اور دیگر اہم قومی اداروں میں بطور اعلی افسران کے طور پر تعیناتی کا آغاز ہوا۔محکمہ ٹیکس، کسٹم وزارت خارجہ کے علاوہ دیگر وفاقی اداروں میں خواتین افسران کی کار کردگی مردو سفارت کاری کی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ پنجاب پولیس میں گو کہ خواتین افسران کی کثیر تعداد مقابلے کے امتحانات پاس کر کے اپنا عملی کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان میں خود پنجاب پولیس ٹریک پولیس اور موارد ے پولیس خاص طور پر آج سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کم و بیش 18 اور 20 کے درمیان خواتین پولیس افسران اسی عہدوں پر فائز ہیں۔ جن میں ڈی آئی جی سے لے کر DPO اور DSP ASP کے علاوہ CPO اور پھر انسپکٹر یا SHO کہہ لیں ۔ اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ خوش آئند امر ہے کہ خواتین کم از کم امن عامہ اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھیں کہ ان خواتین افسران کی موجودگی کے باوجود آج پنجاب پولیس کا کردار کیا ہے ؟ اس کی کارکردگی کیا ہے؟ کیا چادر اور چار دیواری کا تحفظ یقینی طور پر موجود ہے؟گزشتہ دو سالوں سے خاص طور پر پنجاب حقوق کی جو دھجیاں اڑائی ہیں اور جس طرح میں آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں اس کا کیا جواز ہے؟ کیا پنجاب پولیس ایک مخصوص خاندان کی خصوصی فورس بن کر رو گئی ہے یا قومی ادارے جو کہ عوام کی جان و مال اور تحفظ کے ضامن ہوا کرتے ہیں ان کے غیر قانونی احکامات مان کر عوام دشمنی کے مرتکب نہیں ہور ہی ۔ یقین جانیے کہ پنجاب پولیس کے بیشتر افسران جن میں آئی جی سے لے کر ڈی آئی جی سی سی پی اور ڈی پی اوسی پی او آر پی او ان سب کی مختلف انداز میں ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔ سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پولیس سروس میں شمولیت اختیار کرنے والی بیشتر خاتون پولیس افسران سی سی پی او ڈی پی او ۔ سی پی او اور آر پی او کیا یہ اپنی خوبصورت یونیفارم کی نمائش اور اپنی شخصیت کو اُجاگر کرنے کی غرض سے پنجاب پولیس کا حصہ بنی ہیں۔ نجانے کون کون سی مس بٹ اور کون کون سی شہزادیاں اور رانیاں پنجاب کے عوام کی جان و مال اور چادر دچار دیواری کے تحفظ کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ ذرا خواتین کے بنیادی حقوق ہی کا ذکر کریں۔
کیا ڈاکٹر یاسمین راشد، خدیجہ، عالیہ حمزہ اور پھر صنم جاوید خان جیسی نڈر خواتین کے ساتھ پنجاب پولیس کی زیادتیوں پر ہماری اس فورس کی اعلی خواتین افسران کا کیا رد عمل سامنے آیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ یہ مس بٹ شہزادیاں اور رانیاں پنجاب پولیس کی دیدہ زیب یونیفارم زیب تن کرکے اور پھر ویگو ڈالوں کے فلیٹ کی نمائش کر کے ویڈیوز بنواتی ہیں۔ رانیوں، شہزادیوں کی نمائش کر کے ویڈیوز بنواتی ہیں۔ کیا یہ ہے پنجاب پولیس کا چارٹر؟ لائیں ربیعہ باجوہ جیسی نو جوان نڈر خواتین کو ۔ آئی جی ڈاکٹر عثمان صاحب بہادر خود ان ویڈیوز کی زینت بن کر اپنے فرائض نبھا ئیں تو پھر کس طرح پنجاب پولیس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔خصوصی نوٹ کے طور پر واضح کر دوں کہ لندن کی میٹرو پولیٹین پولیس جو کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کا حصہ ہے اس کی ذمہ دار ذرائع پنجاب پولیس کی اس کار کردگی پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کسی بھی پولیس فورس کے ذمہ دار افسران کا خود نمائی اور نمائشی کردار معاشرے کو پستی کی جانب لے کر جاتا ہے۔ کھلی کچہری کی نمائش ٹک ٹاک افسرشاہی رویہ یہ سب کچھ خود اپنی قومی ذمہ داریوں سے انحراف بھی ہے اور اپنے پیشے سے بددیانتی کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے قومی اداروں کے اعلیٰ افسران پر اپنا کرم کرے(آمین) افسران وی آئی پی کلچرکی لعنت اور مخصوص خاندانوں کی غلامی سے نجات حاصل کریں۔ خود نمائی نمائشی طرز عمل اور ٹک ٹاکر افسر شاہی رویہ اپنا کر معاشرے کی تباہی کا باعث نہ بنیں ۔ عوام کے حقیقی خادم بن کر اپنی قومی ذمہ داریاں نبھا ئیں۔آئین پاکستان کو ہی مقدم بنائیں اور اسی پر عمل کریں۔ غیر قانونی / غیر آئینی اور غیر اخلاقی احکامات کی بجا آوری سے باز آ جائیں ۔ پاکستان زندہ باد!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here