نبی ۖرحمت!!!

0
28

وہ دانا سبل ،ختم رسل ، مولائے کل
جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں،وہی یسن،وہی بہ
قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ربیع الاول کا مہینہ ہے جس مہینہ میں سرکار دوجہاں، امام الانبیا، اشرف الانبیا،حبیب کبریا، محبوب ربانی، ہادی عالم، سرکار دوعالم، شفیع المذہبین،رحمت العالمین اس دنیا میں تشریف لائے۔ وہ عید کا سماں تھا جب حضور کائنات، خاتم النبین تشریف لائے۔ ظلم کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنے والے، بے انصاف معاشرے کو عدل و انصاف دینے والے، بیٹیوں کو تلفظ دینے والے، یتیموں کے آسرا۔ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ورفعنالک ذکرک۔ اللہ رب العزت نے فرمایا اے نبء ھم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا۔رسول خدا کا ذکر دنیا کے ہر کونے میں چوبیس گھنٹے ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں کسی بھی لمحہ آپکا ذکر نہ ہوتا ہو۔کہیں نہ کہیں اذان نہ ھوتی ھو۔ جس میں نبء رحمت کا نام بلند نہ ہوتا ہو۔قارئین کرام! کائنات کی تخلیق نبء محترم، نبء مربان،نبء آخر الزمان۔ کے لئے ہوئی۔ جنہیں اللہ رب العزت نے اے حبیب کہا۔ جن پر خود درود پڑھا ، اور پوری امت کو درود کی تلقین کی۔ حدیث قدسی ہے کہ حضرت کرب بن عمرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب آ جائو، تو ہم لوگ منبر کے قریب پہنچ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور فرمایا: آمین، پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا اور فرمایا: آمین، پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا اور فرمایا: آمین، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اترے، تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی، جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تھے (جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا) ہلاک ہو وہ شخص، جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی بخشش نہ ہوئی (یعنی اس نے اس مہینہ کا حق ادا نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کی بخشش نہیں ہوئی)، تو میں نے کہا: آمین، پھر جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص، جس کے سامنے آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے، تو میں نے کہا: آمین، پھر جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص، جس کے والدین یا ان دونوں میں سے ایک بڑھا پے کو پہنچ جائیں اور والدین کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، تو میں نے کہا آمین۔ایک مرتبہ نبی کریم پر درود پڑھنے سے دس گناہوں سے معافی، دس رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ وہ کلمات ہیں جس کی ترغیب اللہ رب العزت نے خود فرمائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اصحاب رسول درود ابراہیمی پڑھتے تھے۔ جس پر اللہ رب العزت کی اپنی مہر ہے۔ درود میں نبیۖ محترم اور اصحاب اہل بیت کا ذکر ہے۔ آپ خود اندازا کریں جو رسول اللہ اور اصحاب اہل بیت سے جنگ کرے یا جنہوں نے انکے ساتھ بغض، دشمنی یا نفرت رکھی ۔ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں نہ شفاعت کا حقدار ہوگا اور نہ جام کوثر اس کے نصیب میںہوگاجب اللہ جل جلالہ اور محبوب ربانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم کی وجہ سے ہی دنیا اور آخرت میں بھلائی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔
ہماری خطائیں بخش دی جائیں گی بلائیں دور ہوں گی ۔شفائیں عطا ہوں گی، قرض میں ہر مرض میں ۔ہر دُکھ میں ہر پریشانی میں ۔ہر ناگہانی آفات میں ۔درود کی برکات سے آسانیاں میسر آئینگی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس صراطِ مستقیم سے واقف ہیں جو اللہ نے رسول خدا کے ذریعہ ہمیں بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے جن پر اس دنیا میں آنے والے انبیا اور پیغمبروںۖ کا سلسلہ ختم ہوا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبیۖ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ پاک ہے جو راستے کی گرد کو بھی کوہ طور کی تجلیات میں ڈھالنے کی قدرت رکھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک اول بھی ہے اور آخر بھی۔ دنیا و آخرت ہر جگہ سب سے اول ہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا “اول ما خلق اللہ نورِی”۔ سب سے پہلے نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی خود فرماتے ہیں “کنت نبِیا و ادم بین الطِینِ والما” ہم اس وقت نبی تھے جب حضرت آدم اپنی آب و گل میں جلوہ گر تھے۔ میثاق کے دن الست بِربِکم کے جواب میں سب سے پہلے بلی فرمانے والے حضورنبی کریمۖ ہی ہیں۔ بروز قیامت سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ انور کھولی جائے گی۔ بروز قیامت اول حضور اقدس کو سجدہ کا حکم ملے گا۔ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے اور شفاعت کا دروازہ حضورنبی کریمۖ ہی کے دست اقدس پر کھلے گا۔حضور نبیۖ مکرم ہی جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔جناب رسول اللہ ہی جنت میں تشریف فرما ہوں گے بعد میں تمام انبیا۔ پہلے نبیۖ مہربان ہی کی اُمت جنت میں جائے گی بعد میں باقی اُمتیں، غرضیکہ ہر جگہ اولیت کا سہرا ان ہی کے سر پر ہے۔ اس قدر اولیت کے باوجود پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخر بھی ہیں۔ سب سے آخر حضور آقا ئے دوجہاں کا ظہور ہوا خاتم النبین آپ ہی کا لقب ہوا۔ سب سے آخر میں کریم ہی کو کتاب ملی۔ سب سے آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا دین آیا۔ سب سے آخر دن قیامت تک حضور نبی کریم ہی کا دین رکھا گیا ہے۔ آپ کا قلبِ مطہر مہبطِ وحی ہے،آپ کی سیرت مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں “کان خلقہ القران” یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر سیرت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نبیۖ کریم مجسم قرآن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک چونکہ معیار حق ہے اس لیے آپکو فرقان بھی کہہ سکتے ہیں یعنی حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنے والا اور قرآن میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو “یسین” اور “طہ” کے مقدس القاب سے بھی نوازا ہے۔خدا کا ذکر کرے، ذکر مصطفے نہ کرے۔ہمارے منہ میں ہو ایسی زبان خدا نہ کرے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ نبیۖ کریم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ سرکار دوجہاں ،امام الانبیا، اشرف الانبیا ۔ نبیۖ آخر الزماں۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے سردار ہیں۔ پوری اُمت کے بڑے ہیں جنہوں نے اُمت کی قیامت تک رہنمائی فرمائی ۔زندگی کے ہر ہر گوشہ میں جینے کا طریقہ سکھلایا۔معاشرتی علوم سکھائے۔غیب کی خبریں بتائیں۔ زندگی کے معاملات چلانے کا سلیقہ بتایا جو اللہ رب العزت کو پسند ہے۔ اللہ رب العزت نے نبی مکرمۖ کی جبرائیل امین کے ذریعے تعلیم فرمائی۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے مرادیں غریبوں کی بھر لانے والے۔ جناب رسول خدا کو اللہ جل جلالہ نے رحمت العالمین بنا کر بھیجا۔ کفر و شرک کے معاشرہ میں مسیحا بنا کر بھیجا۔ ظلم کے معاشرہ میں انصاف کرنے والا ۔ بے حیائی کے معاشرہ میں حیا اور انسانیت سکھانے کے لئے بھیجاگیا۔ اللہ نے مجھے دنیامیں اچھے اخلاق اور اچھے کردار کے لئے بھیجا ہے۔ مومن کے لئے یہ تربیت ہے کہ اس کا اخلاق اور کریکٹر بہترین ہو۔ اللہ کے پیارے نبیۖ نے فرمایا کہ مومن آئیڈیل فیملی اور آئیڈیل سوسائٹی کے احیا کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے بھیجا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بھلائی ،معاشرہ کی اصلاح اور جو تربیت فرمائی ۔ اس نے اخلا ق و کردار کا معاشرہ قائم کیا ۔ اس نے سوسائٹی میں تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، تدبر کا متانت کا ایمانت اور دیانت کا پیکر تھے ۔ مشرکین بھی خضور اقدس کی صفات کے معترف تھے۔ خضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ ہی کی وجہ سے ہی 23 سال کے مختصر عرصہ میں عالم عرب میں اسلام پھیلا۔آج ہمارے علما اخلاق سے عاری ہیں۔ اچھے کردار اور دین کے بنیادی افکار سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ بدزبان، بداخلاق اور زرپرست علما نے دین کو نقصان پہنچایا ہے۔ ڈھائی عرب کلمہ گو ہونے کے باوجود مسلم وجود کو وہ طاقت نہیں مل سکی۔جو چند ہزار کو حاصل تھی۔ بحیثیت مسلمان ہم نے مسلک کو دین اور بداخلاقی کو معیار بنا رکھا ہے۔ فرقہ پرست علما اپنی بداخلاقی اور کریکٹر کی وجہ سے سنت رسول ۖپر لوگوں کو قائل نہیں کرسکے۔علم وعمل سے سے دور ہیں، قول و فعل میں تضاد ہے۔پیغمبر اسلام نے فرمایا علم حاصل کرو چاہے چین ہی جانا پڑے۔آج ہمارا سارا دین شیخ عبدلقادر جیلانی، داتاگنج بخش،معین الدین چشتی اور کسی آیت اللہ کے گرد گھوم رہا ہے۔جس کا قرآن سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ دور میں بیشتر علما کا لہجہ متکبرانہ اور تحکمانہ ہے۔جس سے مسلم تشخص متاثر ہوا ہے۔ آج دین کو ملحدوں سے زیادہ ۔ملائوں سے خطرہ ہے۔ملک کو دشمنوں سے زیادہ مخافظوں سے خطرہ ہے۔ مجرم سے زیادہ قاضیوں سے خطرہ ہے۔ آج ہم بھٹک گئے ہیں ۔ہم نے چودہ سو سالہ تاریخ میں اغیار کو اتنا فتح نہیں کیا۔جتنا ایک دوسرے کے مسلک کو فتح کرنے۔ کفر کے فتوے لگانے پر صرف کیا ہے ،سر تن سے جدا کے فتویٰ لگاتے ہیں۔عمل میں صفر ہیں ۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں اللہ رب العزت کا ذکر آیا ہے وہاں ، اللہ کے حبیب کا ذکر بھی آیا ہے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔آج ہمارے بھائی فلسطین، لبنان، شام اور کشمیر میں مارے جارہے ہیںاور ہم تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔دنیا کا نوے فیصد علاقہ اسلامی عروج کی پہلی صدی میں فتح کرلیا گیا تھا۔آج مسلمانوں کو گھروں سے نکالا جارہا ہے۔ہم ستاون ممالک اور ڈھائی ارب ہونے کے باوجود بھیڑ بکریوں کی طرح کٹ رہے ہیں۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلم لیڈر نہیں جس کی سوچ مسلم اُمہ کے لئے visionary ہو ۔گزشتہ ایک سو سال میں مساجد اہل سنت،بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث ،اثنا عشریہ کی تختیوں سے قائم کی گئیں ہیں۔ نہ ان علما کی زندگیوں میں رسول اکرمۖ کی سنتوں کی جھلک نظر آتی ہے ، نہ اخلاق اور نہ کردار میں۔ مساجد فرقہ بندی کے گڑھ بنا دئیے گئے ہیں جہاں ایکدوسرے پر فتوے بازی ،گستاخ رسول اور قتل کے فتاوی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ جب شیعہ سنی میں سر قلم ہوتے نظر آئینگے۔تو ہم دوسروں کے ہاتھ کیسے روک سکتے ہیں ۔انتہائی یدہ دلیری اور بیدردی سے حقیقی مسلم لیڈرز کو قتل کیا جارہا ہے ۔اسرائیل انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ انسانیت کے چیمپئن خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔مسلمان کو نہ لڑنے کی اور نہ ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صرف تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عریبہ اور قطر تیل اور گیس بند کر دیں تو پوری دنیا کو شٹ ڈائون کرسکتے ہیں لیکن منافق لیڈر شپ اتنی جرآت کہاں سے لائیںجس دن ہم نے رسول خدا سے دل سے محبت کی ، دنیا کو ، مال کو ،اولاد کو حضور پر قربان کیا۔ مسلم اُمہ کو پوری دنیا پر غلبہ نصیب ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here