تنقید ٹھہری بغاوت

0
416
رمضان رانا
رمضان رانا

نقادی اور باغی میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے،نقادی کسی شخص ادارے حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتا ہے۔ ظلم وستم،جبروتشدد اور لاقانونیت پر آواز اٹھاتا ہے۔ تباہی ، فاشنرم اور نازی ازم کا مقابلہ کرتا ہے۔لہٰذا فاشنرم، آمریت اور ظلمت کے خلاف تنقید کرنے کا مطلب صاف کرنا ،جانچ پڑتال کرنا، پرکھنا، تبصرہ کرنا، محاسبہ کرنا، مواخذہ کرنا، اصلیت اور حقیقت بیان کرنا، برائیوں کا ذکر کرنا، اچھائیوں کو سراہنا، حق انسانیت دلوانا، آزادی کا درس دینا، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں جس کو دنیا بھر کی مہذب اور جمہوری آزاد ریاستوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔جس کی بنیاد پر ریاستوں کے حکمران اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔عوام سے حقیقی وعدے کرتے ہیں ،عوام کی مرضی کے خلاف کام نہیں کرتے ہیں۔صحیح قانون کا نفاذ کرتے ہیں انسانی حقوق اور بشری حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔لہٰذا تنقید کرنے کے دو مطلب نکل سکتے ہیں ایک شخص اپنے ظالم جابر، غاصب اور قابض حکمران یا گروہ کے خلاف آواز اٹھاتا تو وہ استعماریت کے دور میں باغی کہلایا ہے جس طرح ہندوستان پر قابض اور غاصب استعماری فرنگیوں کے خلاف جنگیں آزادی لڑی گئی ہیںجس میں مخالفین کو پھانسیاں اور کالے پانیوں کی سزائیں دی گئی ہیں جس کے حریت پسندوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنائے گئے تھے جو ہر لحاظ سے بغاوت تھی جس کا اہل ہند کو حق حاصل تھا کہ وہ غیر ملکی غاصبوں کے خلاف ہر طرح کی جنگ لڑیں جو لڑی گئیںجس میں اہل ہند مسلمان ہندو سکھ شریک تھے یا پھر امریکی آزادی میں جارج واشنگٹن کو انگریزوں کے دہشت گرد گردانا تھاجس نے انقلابی جنگ لڑ کر امریکی عوام کو نو آبادیات سے آزاد کرایا تھایہی جنگیں انقلاب روس ،انقلاب چین میں لڑی گئی ہیں۔جن کے عوام انے اپنی اپنی بادشاہوں ،جاگیرداروں، اجارہ داروں اور گماشتہ سرمایہ داروں سے نجات حاصل کی ہے۔یہی تنقید جب پاکستان کے آمروں، جابروں، غاصبوں اور قابضوں کے خلاف ہوتی ہے جس میں ان کی غیر قانونی اور غیر آئینی کارناموں کا ذکر ہوتا ہے۔حکومتی کارکردگی کیخلاف آواز بلند ہوتی ہے۔حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ ناجائز، غیر قانونی اور غیر آئینی حکمرانوں کے قبضے بتائے جاتے ہیں تو نقادوں اور مخالفین پر غداری کے مقدمات درج ہوجاتے ہیں۔آزادی پسندوں کو باغی قرار دیا جاتا ہے۔ سیاسی معاشی اور سماجی مزاحمت کو بغاوت قرار دیا جاتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ بغاوت صرف اور صرف آئین شکنی آئین کی منسوخی، معطلی اور غیر موثری کے آرٹیکل میں درج ہے کہ جو ہر شخص آئین پاکستان کو سبوتاژ کرے۔یا پاش پاش کریگا ،وہ بغاوت کا مرتکب پایا جائیگا جس طرح جنرلوں کی آئے دن بغاوتوں کے بعد ایک دن جنرل مشرف آئین پاکستان کی گرفت میں آگیا جن کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری قائم ہوا جس میں سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی خصوصی عدالت نے پانچ سال کی مسلسل سماعت کے بعد جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جس کے خلاف ایوانوں، دربانوں اور ایوانوں میں کہرام مچ گیا کہ ایک جنرل بھی باغی نہیں ہوسکتا ہے۔حالانکہ آئین پاکستان حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی فلاح آزما آئین پاکستان معطل منسوخی یا غیرموثر کرنا ہے تو وہ مقدمہ بغاوت کا مرتکب کہلائے گاجس کا جنرل مشرف مجرم ہے جن کی سزا پر ابھی تک عملدرآمد کرانا مشکل ہوچکا ہے جبکہ سیاستدانوں کے خلاف آئین کی بحالی جمہوریت بحالی قانون کی بالاتری کی جدوجہد پر مقدمہ بغاوت بنائے گئے جس میں زیڈ اے بھٹو کو پھانسی اور نوازشریف کو عمر قید اور جلا وطن کیا گیا ہے تاہم ناقد کو باغی اور آئین اور قانون شکن کو محب وطن قرار دینا نہایت جاہلانہ اور جابرانہ رویہ ہے جس کا اطلاق صرف پاکستان میں ہورہا ہے یہاں طالع آزمائوں اور ان کی نسلوں کا مسلسل تسلط چلا آرہا ہے جو کبھی بنگالی قوم کو غدار قرار دیتے رہے ہیں کبھی پختونوں،بلوچوں ا ور شاہیوں کو باغی اور اب پیٹی بیوں کو غدار قرار دے رہے ہیںجس سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکمران ٹولہ اپنے سابقہ حکمران جنرلوں کے پیروکار ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر وہی رویہ اختیار کیے ہوئے کہ جو بھی مخالف ہوگا وہ غدار ہے جس کا آج پاکستان میں چرچا ہے۔کہ فلاں فلاں سیاستدان جس کی دانشور، قانون دان،جج جو بھی موجودہ حکمرانوں کے خلاف یا نفاذ ہیں ،وہ سب غدار ہیں اور ان دنوں کے مقدمات کی زد میں آچکے ہیںجس سے ساٹھ اور ستر کی دہائی کا زمانہ یاد آجاتا ہے جب شیخ مجیب، ولی خان، غوث بخش بزنجو، معراج محمد خاں او ردوسری جمہوری قوتوں کے رہنمائوں کو غدار قرار دیا گیا تھاجن پر مقدمات قائم کرکے سزائیں دی گئیںاور غداری میں ملوث کرکے ملک توڑا گیا۔آج بھی وہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے کہ پاکستان کے نقادوں پر بغاوت کے مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔مخالفین کو اغواء لاپتہ اور قتل کیا جارہا ہے۔جس سے لگتا ہے کہ شاید ظالمانہ اور جابرانہ طاقتیں دن بدن کمزور پڑ رہی ہیں جن کی ریاست کے اوپر ریاست عوام کے سامنے ننگی ہوچکی ہے جو پاکستان کے تمام وسائل پر قابض ہیں اس لیے پاکستان میں ہر قسم کی تنقید کو ناقابل برداشت قرار دیا جارہا ہے۔جس میں پاکستانی اشرافیہ سرفہرست ہے۔عوام اپنے غاصبوں کا محاسبہ نہ کر پائیں۔یہی وجوہات ہیں جو پاکستان میں تنقید ٹھہری بغاوت جو اب جاری رہے گی ۔چاہے حکمران جیسے چاہیں نقادوں کو اذتیں دیں،اغواء اور لاپتہ کے حربے استعمال کریں یا پھر قتل جیسے سلوک اپنائیں اب دور جدید میں پاکستان میں بربریت ناقابل برداشت ہوچکی ہے جس کی آواز پنجاب سے اُٹھ رہی ہے جو وسیع تر اتحادی کی علامت بن رہی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here