کراچی(پاکستان نیوز)بھارت میں حالیہ انتخابات کے نتائج جاری ہونے کے بعد بی جے پی کی زیرقیادت سیاسی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی نے مرکزمیں حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے تو دوسری جانب ان کے حریف راہول گاندھی نے بھی حکومت بنانے کا دعوی کردیا ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق این ڈی اے کو اب تک292جبکہ کانگریس پارٹی کی زیرقیادت سیاسی جماعتوں کے اتحاد انڈیاکو234نشستیں ملی ہیں ۔کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کے مطابق آج اتحادی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل یونائٹڈ (جے ڈی یو) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کرنے کے سلسلے میں بھی مشاورت ہوگی۔یہ دونوں پارٹیاں بھارتی انتخابات میں کنگ میکر کی حیثیت سے ابھری ہیں۔ ٹی ڈی پی کو 15 اور جے ڈی یو کو 12 سیٹیں ملی ہیں تاہم ان دونوں پارٹیوں نے ابھی تک کسی بڑے سیاسی اتحاد کا حصہ بننے کا اعلان نہیں کیا۔ کانگریس پارٹی کے صدر کا دعوی ہے کہ تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل یونائٹڈ (جے ڈی یو)کے ساتھ رابطے جاری ہیں اور ممکنہ طور پر آئندہ24گھنٹوں کے اندر دونوں جماعتوں کے ساتھ مذکرات شروع ہونے کا قومی امکان ہے اگر یہ دونوں جماعتیں اپنی نشستیں کانگریس کے پلڑے میں ڈال دیتی ہیں تو انڈیاکی نشستیں261ہوجائے گی اسی طرح کچھ دیگر علاقائی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کی مجموعی طور پر93نشستیں ہیں جب کہ کانگریس کی قیادت میں سیاسی اتحاد انڈیا اور بی جے پی قیادت میں حکمران اتحاد این ڈی اے کی نشستوں میں 60 کا فرق ہے این ڈی اے کو 292 اور انڈیا کو 232 سیٹیں مل رہی ہیں۔راہول اور کھڑگے کا یہ بیان بی جے پی کے اکثریت سے دور رہنے کے تناظر میں کافی اہم ہے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بی جے پی کو 240 نشستیں ملنے کا امکان ہے اسے حکومت سازی کے لیے مذکورہ دونوں اتحادی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔بھارتی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج واضح ہونے کے بعد چھوٹی جماعتوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے جو مختلف ریاستوں میں مضبوط علاقائی جماعتیں ہیں جبکہ نئی دہلی میں حکومت سازی کے لیے جوڑتوڑشروع ہوگیا ہے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت سازی کے ہارس ٹریڈنگ کوئی نئی بات نہیں ہے چونکہ بی جے پی کا بہت کچھ دا پر ہے اور بھارت کے کئی ارب پتی کاروباری شخصیات کے مفادات بھی مودی سرکار سے جڑے ہیں تو اس بار ہارس ٹریڈنگ میں بھی مقابلہ سخت ہوگا کیونکہ مدمقابل کانگریس کے حامی صنعت کاروں اور بڑے سرمایہ داروں کی کمی نہیں ۔ان کا کہنا ہے اس صورتحال میں ان چھوٹی جماعتوں کی چاندی ہوگئی ہے جو دونوں بڑے سیاسی اتحاد میں سے کسی کا بھی حصہ نہیں ہیں نریندرمودی ہرجلسہ میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا یقین دلاتے رہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے دودن کا مراقبہ بھی کیا مگر کوئی افاقہ نہیں ہوابلکہ بی جے پی سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے بھی اتحادیوں کی محتاج ہوگئی ہے۔دہلی کی نشستوں کے حوالے سے تجزیہ نگارو ں کا کہنا ہے کہ عام آدمیپارٹی کا راستہ روکنے کے لیے مودی سرکار نے ہر آمرانہ قدم اٹھایا اور پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیراعلی کو جیل بجھوا کر انتخابی مہم بھی نہیں چلانے دی گئی اور دہلی کی نشستوں کے لیے ہرحربہ استعمال کیا گیا لہذا نریندر مودی کو دہلی کی نشستوں کا تذکرہ فخرسے نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔ تجزیہ نگار بی جے پی کی انتخابات میں بری کارکردگی کی وجہ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، فوج میں بھرتی کی متنازعہ اصلاحات اور مودی کی جارحانہ پالیسیاںاقلیتوں کے خلاف بی جے پی کی سرپرست عسکری تنظیم آرایس ایس سمیت دیگر انتہاپسندہندوگروپوں کی کھلے عام حمایت اور تفرقہ انگیز مہم کو قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ سال 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت 303 نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی جبکہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس نے ملک بھر سے 353 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ بھارت میں مرکزی حکومت بنانے کے لیے 272 نشستیں درکار ہوتی ہیں اتحادی حکومت کی صورت میں مودی کو اب مرکزی سطح پر کوئی بھی فیصلے لینے کے اپنے انداز کو بدلنا پڑے گا اور اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لینا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی نریندر مودی کو عادت نہیں کیونکہ اس سے قبل وہ مرکزی اور ریاستی سطح پر ہمیشہ اکثریت سے کامیاب ہوتے اور حکومت بناتے رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بحثیت جماعت بھی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی بطور جماعت مقبولیت میں بھی نمایاں فرق آیا ہے اور 2024کے عام انتخابات میں اسے ملک بھر سے 241 نشستوں پر کامیابی ملی ہے یعنی وہ اکیلے سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے جبکہ 2014 میں جب نریندرمودی پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تھے بی جے پی نے 281 جبکہ سال 2019 کے انتخابات میں بی جے پی نے 303 نشستیں حاصل کی تھیں۔