شہرخموشاں کا سفرنامہ!!!

0
44
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

میرے چھوٹے بھائی مولانا الفت حسین سندرالوی پیر پندرہ مئی کو رضائے الہی سے وفات پاگئے تھے اور سندرال کے قبرستان میں دفن کر دیے گئے۔ میں ایمرجینسی میں سندرال آیا اور گزشتہ روز قبرستان کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے خاندان کے اکثر افراد نے قبرستان کو آباد کر رکھا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ میرے زیادہ خونی رشتہ دار اور دوست احباب قبرستان کو آباد کر چکے ہیں۔ ساڑھے سات سو سال سے ہزار ہا افراد یہاں دفن ہیں۔ ایسے ہمسائے ہیں جو ایک دوسرے کی ظاہرا خیریت نہیں پوچھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ملتے نہیں ہیں۔ کسی کو کچھ نہیں کہتے ہیں۔ نہ کسی کی برائی کرتے ہیں نہ کسی پر الزام لگاتے ہیں۔ مہر سکوت انکے دہن پر ثبت ہے۔ جن کے پیارے صبح شام انہیں ملتے تھے وہ اب مہینوں وزٹ ہی نہیں کرتے ہیں۔ کوئی انہیں سلام کرتا ہے تو جواب کی آواز نہیں آتی ۔ جو سلام نہیں کرتا اسکا شکوہ نہیں کرتے۔ ہمیں انکے حالات سے بے خبری ہے ۔ ان مکینوں میں سے کچھ کی رہائش گاہیں پکی ہیں تو کچھ کی کچی۔ امیر و غریب کے امتیاز یہاں مٹ جاتے ہیں۔ یہاں امیر و غریب کی کل پراپرٹی ڈھائی گز ہوتی ہے۔ روزانہ جوڑے بدلنے والے کچھ دنوں سے برسوں سے بلکہ صدیوں سے صدیوں تک ایک ہی لباس میں قانع ہیں۔ وہ نہ کپڑے پریس کراتے ہیں نہ کسی کو امپریس کرتے ہیں۔انہیں نہ کوئی شہرت کی خواہش ہوتی ہے نہ خود ثنائی کی انکی کوئی برائی بھی کرے تو احتجاج نہیں کرتے انکی نہ کوئی خواہش ہوتی ہے نہ طلب ۔ بس بے جان پڑے ہیں۔ بے حس پڑے ہیں۔ اپنے چہروں پر خاک نہ پڑنے دیتے تھے آج منوں مٹی تلے دب گئے ہیں۔ عموما برداشت نہ کرنے والے آج برداشت کے مرکز بنے ہیں۔ شہر خموشاں میں پڑے ان مرحومین کی ایک ہی امید ہے کہ کوئی دوست عزیز رشتہ دار انکیلئے صدقہ کر دے۔ نیکی بھیج دے۔ قران پڑھا دے۔ فاتحہ خوانی کروا دے۔ یتیم پروری کر دے ۔ کسی مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے کوئی صدق جاریہ کردے تاکہ انکی آخرت کی منزلوں میں آسانی ہو جائے۔ میرے قارئین ہمیں زندگی میں اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تا حد نظر خدمت کرنی چاہیے تاکہ بعد میں انسان کف افسوس نہ ملے خاص طور پر جو بلاد مغرب یا دیار غیر میں رہتے ہیں اور ویل آف ہیں انہیں اپنے غریب والدین بھائیوں بہنوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ آپ یقین کر یں جنہیں آپ زندگی بھر کھلاتے ہیں وہ شائد آپ کے دنیا سے جانے کے بعد فاتحہ خوانی ہی نہ کریں شہر خموشاں کے اس بار کے وزٹ سے میری آنکھیں کھل گئیں اور میں یہ سوچتا رہا کہ جن احسان فراموش لوگوں کو ہم آٹ آف دی وے نوازتے رہے ۔ انہوں نے ہم سے ہمارے بھائی کے جانے کا افسوس تک نہیں کیا۔ صلہ رحمی میں اول خویش بعد درویش کا قانون اپنائیں اور بلاوجہ پیٹ بھروں کیلئے حاتم طائی بننے کی بجائے اپنے غریب پیاروں کا بھلا پہلے کریں۔ کر بھلا ہو بھلا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here