دنیا اس وقت اقتصادی ترقی، عوامی فلاح اور ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہورہی ہے لیکن پاکستان گھمبیر مسائل کا شکار ہے۔ آئین معطل، ادارے تباہ۔ مولا جٹ اور قاتل لٹیرے حکمران، قوم کی رکھوالے۔ پی ڈی ایم کا نگران حکومتوں کی فسطائییت اور بے لگامی، ملکی حالات، معاشی بدحالی ، چھنا جھپٹی کی وجہ سے لاکھوں پڑھے ،لکھے لوگ پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ پڑھی لکھی کریم نوجوان طبقہ انتہائی مایوس اور پریشان ہے، اگر حکمرانوں کا کام عوام کے لئے روزگار کے علاوہ انسانی معاشرے کا قیام ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر سیاسی لیڈر اپنے فالورز کو نفرت، دشمنی اور بد اخلاقی سکھاتا ہے جس سے عوام ایجی ٹیشن ، توڑ پھوڑ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ معاشرہ سے اخلاقی قدریں اور انسانیت ناپیدہورہی ہے۔ انسانی روئیے ،اخلاقیات سے جنم لیتے ہیں۔ ان جماعتوں کا منشور کسی طرح الیکشن میں کامیابی ہے۔ تربیتی فورمز کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں اشتعال بہت تیزی سے اُبھر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں خود احتسابی کا کوئی نظام نہیں،سیاسی تربیت اور پارٹی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کارکن جبر برداشت نہیں کر پاتے ہیں،سختی پر پارٹی بدل لیتے ہیں۔ یہ ہر دور میں رہا ہے،پیپلز پارٹی، جونیجو لیگ، ن لیگ بھگت چکے اور اب پی ٹی آئی کی باری ہے۔ یہ سلسلہ بند اور خفیہ ہتھکنڈے بند ہونے چاہئیں، ان سے ہم بہت نقصان اٹھا چکے۔ بیحثیت قوم ہم مفادات کے بندے ہیں۔ملکی مفاد پر پارٹی مفاد اور ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ پارٹی لیڈر یا پارٹی مشکل میںہو تو اوورسیز پاکستانی لیڈرز فورا یورپی اور امریکن ایوان نمائندگان کو اپروچ کرتے ہیں۔ ملکی مفاد کا مسئلہ ہو تو ارکان کانگرس سے بات کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انڈین ہم پر بازی لے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات بدلناہونگی۔ روئیے تبدیل کرناہوں گے، انا کو ملکی مفادات کے تابع کرناہوگا۔ حکمران ظلم و جبر سے ہرچیز ملیا میٹ کر رہے ہیں، اسٹبلشمنٹ انکے ہاتھ کچلنے میں مصروف ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آئیندہ انہوں نے مردوں اور قبرستانوں پر حکومت کرنی ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور پی ڈی ایم اتحاد ہے۔ (خدا خیر کرے) کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی غنڈہ گردی پر اتر آئی ہے۔ جماعت اسلامی کے مینڈٹ کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔مئیر کے انتخاب پر پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوںکو جیلوں میں ڈالا جارہا ہے تاکہ پیپلز پارٹی اپنی من مانی کرسکے۔ الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کا کردار ادا کررہا ہے۔ کراچی ہائیکورٹ میں بیٹھے جیالے ججز ، پیپلز پارٹی سے وفاداری دکھا رہے ہیں۔
قارئین ! پاکستان میں حالات انتہائی مخدوش، اکانومی تباہ، بیروزگاری ،بدامنی ،افراتفری ،لاقانونیت۔ انتشار اور فساد نے ملک کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے پی ڈی ایم کی آواز بن چکے ہیں۔ ملک سے کھربوں ڈالرز لوٹ لئے گئے۔ کسی ادارے کو معلوم نہیں کہ لوٹ مار کس نے کی۔ نامعلوم افراد کچھ زیادہ ہی ہاتھ دکھا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران دھرنا جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے اسمبلیاں توڑنے کے وعدہ پر ختم کیا تھا۔ آرمی اسٹیبلشمنٹ کا قوم سے رویہ، سیاست میں مداخلت اورمشتعل عوام کا جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاوس ، میانوالی بیس اور تاریخی جنگی طیارے کو آگ لگانے اور توڑ پھوڑ سے پوری قوم سکتے میں ہے۔ گھروں سے لوگوں، بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کو اٹھانا، گھسیٹنا، توڑ پھوڑا کرنا پولیس گردی ہے جسے بندہونا چاہئے۔حکمران شکست کے خوف سے الیکشن سے بھاگ گئے ہیں۔ منافقت کی انتہا تو یہ ہے کہ جو لوگ افواج پاکستان کو گالیاں دیتے تھے۔ آج وہ فوج کی حمایت میں ریلیاں نکال رہے ہیں، پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اور حقیقی یوتھیوں نے (حقیقی آزادی)کا جنازہ نکال دیا۔عمران خان کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ٹائیگرز دبے دبے لفظوں میں کپتان خان کے سخت روئیے پر بول رہے ہیں۔ اندر کا ”لاوا” باہر نکل رہا ہے۔ فیاض چوہان اور دیگرنے پارٹی پالیسی کا جنازہ نکال دیاہے۔ پی ٹی آئی کارکن ،یورپ، امریکہ اور یو اے ای سے باقائدہ طور پر فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ جہاں 9 مئی کے واقعات کی مذمت ہونی چاہئے۔ وہاں یہ سب یہی ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج اورنفرت کیوں پیداہوئی۔ آرمی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ لوگ انکے خلاف کیوں ہیں ؟انکا امیج اور وقار دن بدن خراب کیوںہو رہا ہے ؟ اسکی بنیادی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ پلاٹوں پر قبضے ہیں، اختیارات سے تجاوز ہے۔ ملک میں ہر طرف اندھیرا اور دھند ہے،کچھ سجھائی نہیں دیتا، یہی حال اس وقت پاکستان کا ہے۔ عوام حکمرانوں اور عمران خان کی انا کی بھینٹ چڑ چکے ہیں۔ عمران خان کوبھی اپنے روئیے میں تبدیلی کرنی چاہئے۔ملک جارحانہ طرز سیاست کا متحمل نہیںہوسکتا۔اورنہ ہی فاشسٹ نظریات ،فسطائیت حربے،زور زبردستی ظلم،اور بے انصافی طرز جمہوریت ہے۔ مخالفین کو تیع تیغ کرنا، جیلوں میں ڈالنا، عورتوں پر ظلم و تشدد کرنا، غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل اور قابل مذمت ہے۔ ن امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے قافلے پر خودکش حملہ قابل مذمت ہے۔ اس کا مقصد ملک میں مزید افراتفری پیدا کرناہوسکتا ہے۔ الحمد للہ سراج الحق کو اللہ باری تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ دہشت گردی نے ایک بار پھر سراٹھا لیا۔ پارا چنار میں سات استاتذہ کو شہید کردیا گیا۔شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز پر حملوں میں چھ فوجی جوان شہیدہوئے ،دہشت گردی کی یہ نئی لہر تشویشناک ہے۔ انکے خاتمہ کے لئے قومی اتفاق کی ضرورت ہے۔ پولیس کو چادر چاردیواری کی پامالی ،عورتوں سے بدسلوکی سے فرصت ملے تو ملکی سیکورٹی پر توجہ دیں۔ ملک کو نفرت ،دشمنی، ذاتی عناد اور مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ نگرانوں نے گہرے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ بستہ بے بدمعاش،عادی مجرم اور کریمنلز حکمران ہیں۔ خوف،جبر،ظلم و تشدد ان عادی مجرموں کا وطیرہ رہاہے۔ فوج کو پولیس بنادیا گیا ہے۔ جرنیل آئی جی پولیس کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اب جرنیل کورٹس بناکر ظلم وزیادتی کرینگے۔ جرنیلوں کی بدمعاشی کے خلاف ضرور بولیں۔ لیکن پوری آرمی کو ٹارگٹ کرنا۔ عوام کو خلاف ابھارنا،انتہائی نامناسب ہے۔ ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ جوڈیشری کو بے توقیر کردیا گئا ہے۔ ججز کے فیصلوں کو روندا جا رہا ہے۔ انکے خلاف کمپیئن چلائی جارہی ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عدم اعتماد اچھا شگون نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں۔ پی ڈی ایم کو مخالفین کو کچلنے کا موقع مل گیا۔
عمران خان اور پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم کو پراپیگنڈے کا موقع فراہم کردیا۔ ایک طرف متشدد ذہنیت، ، نوجوانوں کا جوشیلا پن اور دوسری طرف تیس سال ملک لوٹنے والی مہذب اشرافیہ۔ ایک طرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کا امتحان اور دوسری طرف چوروں کی بارات کا فیوچر۔ ہر چند سال بعد پارٹیوں سے لوگ توڑ کر کمزور کیا جاتا ہے جو کل حکومت میں تھے۔ آج اپنی ہی پارٹی کے خلاف بول رہے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سارے گند کا بوجھ اٹھائے۔ آرمی جرنیلوں، ججز اور جن لوگوں نے گزشتہ تیس سال اقتدار کے مزے لئے انہیں بھی اس گند کا برابر بوجھ اٹھانا چاہئے۔منفی اور متشدد سوچ کا پروان چڑھنا دراصل سیاسی جماعتوں اور اداروں کا Failure ہے۔ فوجی اسٹبلشمنٹ ،پی ٹی آئی ،ن لیگ اور پی ڈی ایم کو اپنی منفی سوچ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی، آرمی اور پی ڈی ایم عدلیہ کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے۔ ڈگریاں لئے بے روز گاری سے تنگ فرسٹریشن کا شکار نوجوان قانون ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ جس کی پاداش میں گھروں سے اٹھائے جارہے ہیں جب تک اس ملک میں انتقامی سیاست ہوگی ہم اپنی اصل ڈائریکشن کھو دینگے، نالائق اور کرپٹ لیڈرشپ کی وجہ سے ہم پچاس سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش ہم سے آزاد گو کر ترقی میں ایک مقام بنا چکاہے۔ گزشتہ تیس سال میں دوبئی نے ریت میں نئی دنیا بسا لی ہے لیکن ہمارا سفر تنزلی کیطرف جاری ہے۔ وہی کرپٹ اور مکرو چہرے۔ وہی فرسودہ نظام، پی ٹی آئی کے لوگ دھڑا دھڑ پارٹی چھوڑرہے ہیں جن سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جارہی ہے۔ ایسے لوگ جس پارٹی میں بھی ہوتے ہیں، اس پارٹی کو ایسے ہی ڈبوتے ہیں، الیکشن کمیشن انتہائی بے ضمیر اور پی ڈی ایم کی ٹیم کا کردار نبھا رہا ہے۔ یہ جمہوریت نہیں سول مارشل لا ہے۔ ایسے فسطائی حربے بندہونے چاہئیں۔
٭٭٭