کارل مارکس نے1870میں کہا تھا، ”جمہوریت استحصال زدہ مظلوم لوگوں کو چند سالوں میں ایک بار یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ ظلم اور استحصال کرنے والے کو نے نمائندے اپنے لئے چنیں جو پارلیمان میں ان کی نمائندگی بھی کریں اور ان پر آنے والے سالوں میں ظلم اور استحصال بھی جاری رکھیں ”یہ بات پاکستان کے علاوہ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت کے نام پر حکومت ہے پورا اترتی ہے۔ سوائے یورپ کے چند ملکوں کے جہاں حضرت عمر بن خطاب کا قانون چلتا ہے کہ حکومت عوام کی اور سیاستدان ان کی پرابلم کو دور کرنے والے خیال رہے ہم نے یورپ لکھا ہے جس کی بہترین مثال ناروے ہے۔ اب آئیے عورتوں کا سیاست میں آنا جس کے لئے میخائل گوربا چوف نے اپنی کتاب PERESTROIKA میں لکھا ہے ”عورت کا مقام” کے باب میں”ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا جس کے نتیجے میں معاشی فوائد حاصل ہوئے۔ پیداوار میں بھی اضافہ ہوا عورتیں اور مرد دونوں کام کر رہے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے میں فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس ضمن میں جو نقصانات ہوئے وہ ان فوائد سے کہیں زیادہ ہیں جو ترقی کے نتیجے میں ملے۔ ” گوربا جوف نے آگے لکھا ہے میں PERESTROIKA شروع کر رہا ہوں۔ مطلب ایسا معاشی نظام جو عورتوں کو گھر میں بٹھائے۔ اس بیان کے چند سال بعد USSR بکھر گیا لیکن اس کی کہی ہوئی بات بہت حد تک درست ہے پاکستان میں عورتوں کے سیاست میں آنے سے ہم یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ عورت ایک صنف نازک ہے جسے آسانی سے اپنے عزائم کی تکمیل(اچھی یابری) کے لئے سانحے میں ڈھالا جاسکتا ہے کم ازکم سندھ حکومت میں اور نون لیگ میں جو دو خاتون سرگرم ہیں انہیں نہیں معلوم وہ ملک کو اور معاشرے کو کسی قدر پراگندہ کرچکی ہیں یہ ہی بات ہم عمران خان کی دونوں بیگمات پنکی اور ریحام کے لئے کہینگے۔ عمران خان آج جس بھونچال میں ہیں اس میں انکی پیرنی بیگم کا ہاتھ بھی ہے خیال رہے عمران خان کتنا ہی ٹوٹ پھوٹ جائے اس وقت پاکستان میں عوام کے لئے وہ بھی امید کی کرن ہے۔ پچھلے ایک سال سے اس کے گردPDMکے بدنام زمانہ سیاست دانوں کی سازشوں کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے جس میں9مئی کے بعد نئے کمانڈر انچیف عاصم منیر بھی شامل ہیں جو ان سازشی سیاست دانوں کی باتوں میں آگئے ہیں۔ ثناء اللہ نے جو اسٹیج تیار کیا تھا یہ چھپی بات نہیں ہے۔ عمران کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں کمرے سے گرفتار کرکے لے جایا گیا کورٹ کے اندر اور باہر نامعلوم افراد کا ہجوم تھا جو عوام نہیں تھے یہ سراسر قانون کی خلاف ورزی تھی۔پھر اچانک انہیں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے سامنے لایا گیا چیف جسٹس نے عمران خان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا جس پر تمام سیاستدان طیش میں آگئے بالخصوص، مریم نواز، عطا تارڑ، شہبازشریف اور دوسرے صرف اتنی بات تھی جسے پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ بنا دیا اور یہ سب چیف جسٹس کے پیچھے پڑ گئے اسمبلی میں جمع ہوئے اور انکے خلاف قرار داد پاس کرنے پر غورو خوض شروع ہوگیا۔ جو پورے ہفتہ جاری رہا اور بل پاس ہوا کہ دوسرے ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس نہیں کرسکتے جس پر وکیلوں اور بابراعوان نے بیان دیئے کہ یہ اختیارات اسمبلی کے نہیں صرف چیف جسٹس کے ہیں لیکن غیر آئینی حکومت معروف ہے ایک سے ایک بڑی سازش ہیں۔ بتاتے چلیں جب عمران خان گرفتار تھے تو عوام نے ملک گیر احتجاج کیا اپنے رہنما کے لئے دفعہ144کا نفاذ ہوا اور رینجرز اور پولیس نے مل کر احتجاج کی آڑ میں جناح ہائوس اور کور کمانڈر کی رہائش پر دھاوا بول دیا۔PTIکے کارکنان بمعہ یاسمین راشد عوام کو روکتے رہے۔ جناح ہائوس جو کبھی بھی جناح ہائوس نہیں تھا رینجرز اور پولیس نے آگ لگائی۔ ویڈیو میں پولیس اور رینجرز کو سادہ کپڑوں میں پولیس کے ڈنڈے سے کور کمانڈر کے گیراج میں کھڑی کاروں کے شیشے دکھایا گیا۔ پروپیگنڈہ مشینری جو مریم نواز، مریم اورنگزیب اور ثناء اللہ کی نگرانی میں تھی زور وشور سے کام کر رہی تھی 9مئی کے سانحہ کی آڑ میں جو بھونڈے طریقہ سے پلان کیا گیا تھا۔PTIکی اوپری قیادت کے افراد کو جیل میں ٹھوس دیا گیا اور عاصم منیر کو مشورہ دیا گیا کہ ان پر فوجی عدالت (دہشت گرد عدالت) میں مقدمہ چلایا جائے۔ لیکن آج کے زمانے میں پریس اور بین الاقوامی میڈیا کی آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ عاصم منیر کے دھمکی آمیز رویہ سے ظاہر ہوتا ہے یہ غیر آئینی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کے عوام کا دفاع کم اور اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔PTIکو کالعدم قرار دینے کی مذموم سازش میں شامل ہیں اپنے ہی عوام سے دشمن رویہ رکھنا پاکستان میں امن نہیں بلکہ اس مشرقی پاکستان کی عکاسی کرے گا جو ہم دیکھ چکے ہیں آخر یہ تمام حقیقت ہمارے جنرلز کیوں نہیں دیکھ رہے۔ نتیجہ میں عمران اگر ان پر الزام نہ لگائے تو کیا ہار پہنائے۔
بات صرف الیکشن کرانے کی تھی لیکن اس کے نتیجہ میں عمران اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوتے۔ آسمانی یا مذہبی کتابوں میں ڈیوڈ بمقابلہ گولیتھ پڑھیں تو آج کے دور کا ڈیوڈ(دائود) عمران خان ہے اور اسکے مقابلے میں سینکڑوں گولیتھ(دیو) ہیں کیا ڈیوڈان سب کو شکست دے سکے گا؟ جواب میں یقیناً اگر عوام اس کا ساتھ دیں ہر چند کہ اس پارٹی کے ممبر استعفٰے دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہم سیاست چھوڑ رہے ہیں تو ہم انہیں الزام نہیں دینگے کہ انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں ماں بہن اور انکے بچوں کو اٹھانے کی اور انکے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ عمران کو چھوڑ دیں شاباشی ہے۔PTIکے شاہ محمود قریشی کو جیل میں بند ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ شیطانوں کے لکھے کسی بیان پر دستخط نہیں کرینگے اور ہمیں امید ہے کہ آزادی کی شمع نہیں بجھے گی تو اب کارل مارکس کی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔
ساتھ ہی گوربا چوف نے ایسی عورتوں کے لئے لکھا تھا جو اپنا ایمان اور اپنی صنف کے برخلاف شیطانی باتیں کر رہی ہیں جو اخلاق سے گری ہوئی ہیں ایک کالمسٹ غیر جانب دار ہوتا ہے لیکن ہماری مجبوری کہ ہم پاکستان کی عظمت اور اور طاقت چاہتے ہیں اور حبیب جالب نے جو ضیاء الحق کے دور میں کہا تھا اس شعر کو حروف بحروف سچائی کی عکاسی کہینگے یہ شعر عاصم منیر کی خدمت میں
گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں
ضیاء الحق کے بعد سے اب تک کچھ نہیں بدلا بلکہ حالات پہلے سے بھی بدتر ہیں ایک اور ویڈیو نظر سے گزری جس میں گلگت بلتستان میں عوام کے مجموعہ سے کوئی خطاب کر رہا ہے اور الفاظ یہ ہیں۔ ” ہم بھی پاکستان کے بارے میں نظرثانی کرنے پر مجبور ہونگے” یہ بھی کہا گیا”گلگت بلتستان والو زمان پارک کے احاطے میں بیٹھے جوانوں کو ثناء اللہ دہشت گرد کہتا ہے”ہم پوری تقریر لکھنے سے قاصر ہیں کہ آپ کہیں ڈیپریشن کا شکار نہ ہوجائیں۔ ایک ہفتہ سے اسکول کے بچوں، بوڑھوں کو جناح ہائوس اور کور کمانڈر ہائوس کو جلانے کے بعد دکھا رہے ہیں۔ ریلیاں نکالی جارہی ہیں افواج پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ میڈیا پر دن رات عمران اورPTIکے خلاف الزام تراشی ہو رہی ہے اور دل کی مریض ضعیف خاتون ڈاکٹر یاسمین راشد کو بار بار جیل بھیجا جارہا ہے اگر یہ سب باتیں لکھی جائیں تو ایک ہفتہ کی وارداتوں پر3سو صفحات کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ افسوس کہ عاصم منیر سچ کی بجائے جھوٹ کے ساتھ ہیں۔
٭٭٭٭