محترمہ فرحین چوہدری صاحبہ!!!

0
55

آج آپ کی فیس بک پر محترمہ و مرحومہ عاطف پروین کی کتاب کلیاتِ پروین عاطف اور اس پر مرحومہ کی تصویر دیکھ کر دل بھر آیا اور آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ انہیں مرحومہ لکھتے ہوئے دل کانپ گیا ہے۔ وہ نہایت باوقار، وضع دار اور انسان دوست شخصیت تھیں۔ آپ کی تحریر پڑھ کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ ممتاز ادیبہ نیلم بشیر صاحبہ ان کی سگی بھتیجی ہیں۔ چند سال قبل نیلم بشیر صاحبہ سے نیویارک میں ممتاز شاعر اور نقاد جناب میمون ایمن کے گھر عشائیہ پر ملاقات ہوئی تھی کہاں ممتاز سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ بھی آئے ہوئے تھے۔ پروین عاطف کے شوہر بریگیڈیر عاطف بھی ملنسار اور مہذب انسان تھے۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ میں اور میرے پیارے دوست ممتاز ایرانی ادبی دانشور جناب علی پیرنیا محترمہ کی دعوت پر اسلام آباد میں ان کے دولت کدہ پر گئے۔ فارسی ادبیات کے حوالہ سے بہت دلچسپ گفتگو رہی۔ ان کی بیٹی جو راولپنڈی میڈیکل کالج کی طالبہ تھیں وہ بھی شریکِ محفل رہیں۔ ہم کئی ادبی تقاریب میں اکھٹے شامل ہوئے۔ وہ نہ صرف میری شاعری کی مداح تھیں وہ میری خطابت کی بہت تعریف کرتی تھیں۔ یہ ان کی ذرہ نوازی تھی۔ ایک مرتبہ کہنے لگیں میں حال میں ادیبوں کے ایک وفد کے ساتھ چین گئی ، میں تو وہاں جا کر حیران رہ گئی کہ وہاں تو کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے اور کسی قسم کی آزادی نہیں ہے۔ نہ سیاسی آذادی اور نہ تقریر و تحریر کی آزادی۔ ان کی یہ بات سن کر میں ہنسنے لگا۔ متعجب ہوئیں اور کہنے لگیں آپ ہنس کیوں رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ اب روس کا بھی دورہ کر آئیں ۔ بولیں ، وہ کس لیے؟ میں نے کہا تاکہ آپ کو پکا یقین ہو جائے کہ جہاں اشراکیت ہوتی ہے وہاں جمہوریت نہیں ہوتی۔ یک جماعتی نظام ہوتا ہے۔
محترمہ ایک انقلابی اور سیمابی مزاج رکھتی تھیں۔ منکسر المزاج اور ہمدرد انسان تھیں۔ان کا ناول تارا سب کی آنکھ کا تارا بن گیا ہے۔ اس ناول میں سماجی اقدار و مسائل اور سیاسی عروج و زوال کی بھر پور نمائندگی ملتی ہے۔ آپ کو تاریخِ اردو ادبیات میں جو مقام حاصل ہیوہ بقولِ سعدی شیرازی!
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ پاک ان کر مغفرت فرمائے۔ آمین
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here