پاکستان میں آج ہر شہری کے منہ میں یہ الفاظ پائے جارہے ہیں کہ ملک ٹوٹ رہا ہے باقی نہیں بچے گا۔ فلاں نہیں تو پاکستان نہیں رہے گا۔ وغیرہ وغیرہ یہ وہ الفاظ ہیں جو نہ جانے کہاں سے عوام میں سرایت کرچکے ہیں کہ پاکستان کے25کروڑ عوام میں نحوست میں مبتلا کردیئے گئے ہیں کہ جوا پنے ظالموں اور جابروں کے خلاف تحریک چلانے کی بجائے بکھر جانے کی سوچ سکتے ہیں جن کا رویہ منفی ہوچکا ہے جن پر مایوسی کے بادل چھا چکے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں بھوک، ننگ، بیروزگاری اور مہنگائی کا دور دورہ ہے جس کی وجہ سے عوام میں انتشار پھیلا ہوا ہے مگر غربت، افلاس مہنگائی بے روزگاری بھوک ننگ کا مطلب ریاست پاکستان کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے۔ جس کے لیے دنیا بھر میں انقلابات برپا ہوئے ہیں جس میں انقلاب فرانس، روسی اور چینی انقلابات قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو بادشاہوں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے نجات دلوائی تھی کیا پاکستان کے اردگرد ممالک بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان اور ایران میں بھوک، ننگ، بے روزگاری یا مہنگائی نہیں ہے مگر یہ ممالک نہیں ٹوٹ رہے ہیں صرف پاکستان کے عوام کو کیوں بانٹا جارہا ہے۔ کیونکہ وہاں تحریکوں کا سہارا لیا جا رہا ہے کہ آج بھارت میں عام آدمی پارٹی نے ملک میں انقلاب برپا کردیا ہے کہ جس سے روائیتی پارٹیاں دہلی جیسے دارالخلافہ سے صاف ہوچکی ہیں یا پھر پاکستانی عوام کو فلسطینیوں اور کشمیریوں کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ پاکستان کے بغیر کیسے نہیں چونکہ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے مدمقابل جھتے باز گروہ پیدا کردیئے ہیں جو کبھی ایم کیو ایم اور کبھی پی ٹی آئی کی شکل میں نظر آتے ہیں جس میں جدوجہد کی بجائے مار دھاڑ، گالی گلوچ اور تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے جن کی پیدائش، پرورش اور تربیت فوج نے کی ہے جو آج مچھلی سے مگرمچھ بن چکے ہیں۔ جن کو سنبھالنا مشکل ہوچکا ہے۔ جن سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ جن کا باہر کا چہرہ کچھ اور ہے اور اندر کا چہرہ کچھ اور ہے جن کے پیروکار مہمان وقت پاکستان ٹوٹنے کا پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں جن کو بین الاقوامی طاقتوں نے یہ سب کچھ سکھایا ہے کہ ملک میں ایسا انتشار پھیلائو تاکہ عوام خلفشار کا شکار ہوجائیں۔ جو سب کو نظر آرہا ہے کہ عوامی مسائل کے حل کے لئے کسی تحریک کی بجائے ملک توڑنے کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے حالانکہ ملک پر فوج کا قبضہ دہائیوں سے رہا ہے جنہوں نے بھٹو، نواز، الطاف اور عمران پیدا کیا تھا مگر بھٹو نواز الطاف باغی ہوگئے جس میں ایک کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ دوسرے کو کبھی جیل ملک بدر کیا جاتا ہے۔ تیسرے کو بھی مستقل جلاوطن کر رکھا ہے چوتھے صاحب کو اپنی حفاظت میں رکھا ہوا کہ جو ظاہر قیدی نظر آتے ہیں مگر مخصوص جیل خانہ جو تمام تر سہولتوں طاقتوں سے ایسی سجی ہوئی ہے کہ ایسی عیش وعشرت عالیشان بنگلوں، کوٹھیوں، محلوں میں نہیں ملتی ہیں کہ جن کے لئے جیل کا دروازہ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جن کو ملنے جلنے کھانے پینے کی ایسی سہولتیں میسر ہیں کہ جس کی دنیا بھر مثال نہیں ملتی ہے کہ کسی سزا یافتہ قیدی کو یہ سب کچھ میسر ہوتا ہے پاکستان میں یہ انتشار اور خلفشار صرف اس لیے ہے کہ ملک میں کوئی عوامی انقلابی پارٹی نہ بن پائے ہر پارٹی پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ جو اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر چل رہی ہے جو پاکستان کی مردہ لاش سیاسی پارٹیوں کے کندھوں پر ڈال کر تماشہ دیکھ رہی ہے جو نہیں جانتے کہ ایسے ویسے میں ریاست خانہ جنگی کا شکار ہو کر صومالیہ اور افغانستان بن جاتی ہے لہذا اس بچو کہ کس یہ سب ٹھاٹھ پڑا جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ جس میں سب سے بڑا نقصان صرف پاکستان کے جنرلوں ججوں، امیروں، جاگیرداروں، رسیہ گیروں اور اجارہ اداروں کوہوگا جو اقتدار کی بجائے دنیا بھرمیں چھپتے پھرتے نظر آئیں گے۔ جن کو ایران کے بادشاہ کی طرح پناہ نہیں ملے گی یا پھر افغانی بھگوڑوں کی طرح دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے نظر آئیں گے۔ بہرحال پاکستان کے عوام کو امیر زادوں جاگیرداروں سرمایہ داروں رسیہ گیروں اور کرپٹوں کی بجائے عوامی انقلابی پارٹیوں کی ضرورت ہے جو پاکستان میں جاگیرداری، جنرل کریسی اور رسہ گیری کی جگہ عام عوام کے لوگ ہوں جو عدم عوام میں سے ہوں۔ جو اصلاحات کے نفاذ سے پاکستان کے غریب، مفلیں، بھوکے ننگے لوگوں کی زندہ رہنے کی امیددیں ہے اب پاکستان میں عالیشان بنگلوں کوٹھیوں محلوں، بنی گالوں، زمان پارکوں، جاتی امروں کی جگہ ہر شہری کو کھانے پینے اور ملنے کی سہولتیں فراہم کریں گی۔ جس میں امیر، امیر نہیں رہے گا اور غریب غریب نہیں رہے گا۔ یہ زمین اللہ پاک کی ہے جس کی مالک ریاست ہے جو جاگیرداروں رسہ گیروں اور اجارہ داروں سے چھین کر کسانوں میں بانٹ دی جائے گی۔ جو صدیوں سے ظالموں اور جابروں کی قبضے میں ہے۔ مزدور اور محنت کش کو بچے پالنے کا موقع ملے۔ اس لیے ملک توڑنے کی بجائے انقلاب برپا کیا جائے۔
٭٭٭٭٭