آرمی چیف کی امریکی سرمایہ کاروں کو کاروبار کی دعوت

0
78
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پاک فوج کے سربراہ نے امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ، سیکرٹری دفاع،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور دیگر اہم حکام سے ملاقاتیں کی ہیں ۔ان ملاقاتوں کے دوران دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔آرمی چیف کے دورہ امریکہ کو موجودہ حالات کے پیش نظر بڑی اہمیت حاصل ہے۔پاکستان نے دوست ممالک کے سرمایہ کاروں کے مطالبے پرسپیشل فیسلی ٹیشن کونسل قائم کردی ہے جو سرمایہ کاری میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔امید ہے کہ آرمی چیف کی یقین دہانی پر امریکی سرمایہ کار اور اوورسیز پاکستانی فائدہ اٹھا ئیں گے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دورہ امریکہ کے دوران اہم کاروباری شخصیات سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کا کہا ہے۔ پاکستانی سفارتخانے میں ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے اوورسیز پاکستانیوں کے متعدد شبہات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ اوورسیز پاکستانی وطن کا قیمتی اثاثہ ہیں اور ان کی خصوصی سکریننگ کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔اس دورے کے دیگر پہلووں کا تجزیہ اپنی جگہ، سردست پاکستانی معیشت کی بحالی کے لئے پاکستانکی یکسوئی متوجہ کر رہی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آنے والی حکومتوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنی مثبت کوششوں میں اضافہ کیا ہے، پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے، ٹیکس وصولی کی تنظیم نو، تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے اور بدعنوانی کے خاتمے کا عہد کیا۔ تاہم نگران حکومت کو ادائیگیوں کے توازن کا بحران وراثت میں ملا ہے، جس کی وجہ سے وہ درمیانی سے طویل المدتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بجائے بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کی فوری ضرورتوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہوئی۔ چار سال پہلے حکومت نے جولائی 2019 میں IMF توسیعی فنڈ کی سہولت حاصل کی اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت متعدد ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا۔سرمایہ کاری و کاروبار میں آسانی جانچنے کے لئے ورلڈ بینک کی ڈوئنگ بزنس 2020 کی درجہ بندی میں پاکستان 190 ممالک میں سے 108 ویں نمبر پر تھا، جو کہ 2019 کے مقابلے میں 28 مقامات سے اوپر کی طرف ایک مثبت پیش رفت تھی۔ یہ درجہ بندی آج بھی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت اچھی نہیں۔یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کی کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کی کوششوں میں اضافے کی کافی گنجائش باقی ہے۔ کورونا کے وبائی مرض نے پاکستان کی معیشت پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔بعد میں سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت مسائل کا شکار ہوئی۔ آئی ایم ایف نے مالی سال 2020 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی تھی، پاکستان کی معیشت مالی سال2023 میں 2.5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ معاشی بہتری کے منصوبوں میں آرمی چیف کی دلچسپی کی ایک وجہ سکیورٹی معاملات کی وجہ سے سرمایہ کاری متاثر ہونے کی خبریں ہیں۔ پاکستان میں حکومت کی خواہش ، عوام کے تعاون اور عمومی فضا کے بہترین ہونے کے باوجود غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک چیلنجنگ ماحول بنا ہوا ہے۔ سکیورٹی کی بہتر لیکن غیر متوقع صورتحال، مشکل کاروباری ماحول، تنازعات کے حل کا طویل عمل، انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس (آئی پی آر)کا ناقص نفاذ، ٹیکس لگانے کی متضاد پالیسیاںاور صوبوں میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ قوانین کی کمی نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان اپنی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔بالخصوص توانائی، زراعت، انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اور صنعتی شعبوں میں وہ نئی سرمایہ کاری چاہتا ہے۔ 1997 سے پاکستان نے بڑے پیمانے پر کھلی سرمایہ کاری کا نظام قائم کیا ہے ۔ پاکستان نے 2013 میں ایک پالیسی متعارف کرائی جس نے غیر ملکیوں کو راغب کرنے کے لیے زیادہ تر شعبوں میں سرمایہ کاری کی پالیسیوں کو مزید آزاد کیا۔ اپریل 2015 میں چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) بنا۔ 2019 کے آخر میں، بنیادی طور پر بنیادی ڈھانچے اور توانائی کی پیداوار پر توجہ مرکوز کی۔ غیر ملکی سرمایہ کار غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے قانونی تحفظات کو بہتر بنانے، املاک دانش کے حقوق کے تحفظ اور معاہدے کی ذمہ داریوں کو برقرار رکھنے اور ٹیکس کے تنازعات کے حل کے لیے واضح اور مستقل پالیسیوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ غیر ملکی، سوائے بھارتی و اسرائیلی شہریوں کے، پاکستان میںکاروبار کر سکتے ہیں ۔ ان کے مفادات کو تحفظ دیا جاتا ہے، سوائے اسلحے اور گولہ بارود کے کاروبار کے وہ تمام کاروبار کر سکتے ہیں۔ایسی کوئی پابندیاں یا میکانزم نہیں ہیں جو خاص طور پر امریکی سرمایہ کاروںکا خیر مقدم نہ کریں۔ ایسے کوئی قوانین یا ضابطے نہیں ہیں جو نجی فرموں کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف امتیازی سلوک کا حق دیں۔غیر ملکی بینک مقامی طور پر شامل ذیلی کمپنیاں اور شاخیں قائم کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے پاس ادا شدہ سرمائے میں 5 ارب ڈالر ہو یا ان کا تعلق کسی علاقائی تنظیم یا ایسوسی ایشن سے ہو جس کا پاکستان رکن ہے (مثال کے طور پر، اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) یا جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک)۔ ان ضروریات کی عدم موجودگی میں غیر ملکی بینک مقامی طور پر شامل ذیلی اداروں میں 49 فیصد زیادہ سے زیادہ ایکویٹی حصص تک محدود ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here