نیویارک (پاکستان نیوز)صدارتی انتخابات 2020کے ابتدائی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے اپنے حریف ری پبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح برتری حاصل کر لی ہے ، ابتدائی اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس کے جوبائیڈن نے 248الیکٹورل ووٹس حاصل کیے ہیں جبکہ ری پبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ نے 214 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں ، جارجیا میں ٹرمپ 2لاکھ 40 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے سرفہرست ہیں جبکہ بائیڈن 2لاکھ 33ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر ہیں ، جارجیا میں الیکٹورل ووٹس کی تعداد 16ہے ، مشی گن میں جوبائیڈن 26لاکھ 84 ہزار سے زائد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر ہیں جبکہ ٹرمپ 2لاکھ 61ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر سکے ہیں اور اس ریاست میں بھی الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 16ہے ، نیواڈا میں بھی بائیڈن 5لاکھ 88ہزارسے زائد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں جبکہ ٹرمپ 5لاکھ 80ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 6ہے ، نارتھ کیرولائنا میں ٹرمپ 27لاکھ 32ہزار سے زائد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر ہیں جبکہ بائیڈن 26لاکھ 55ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں ، یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 15ہے ، پنسلووینیا میں ٹرمپ 31 لاکھ 25ہزار ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں جبکہ بائیڈن 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 20 ہے ۔ایریزونا میں جوبائیدن 14 لاکھ 11 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ پہلے اور ٹرمپ 13 لاکھ 18 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں ، یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 11ہے ۔فلوریڈا میں ٹرمپ 56 لاکھ 57ہزار کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ بائیڈن 52 لاکھ 82 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 29 ہے ۔لووا میں ٹرمپ 8لاکھ 96 ہزار ووٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ بائیڈن 7 لاکھ 57 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں ، یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 6 ہے ۔نیو ہیمپشائر میں جوبائیڈن 4 لاکھ 20 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ ٹرمپ 3لاکھ 63 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں ، یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 4 ہے ، اوہائیو میں ٹرمپ 30 لاکھ 74 ہزار ووٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ ان کے حریف بائیڈن 26 لاکھ 3ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 18ہے ، ٹیکساس میں بھی ٹرمپ 58 لاکھ 28ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ آگے ہیں جبکہ بائیڈن 51لاکھ 66ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 38 ہے ، وسکانسن میں ڈیموکریٹس کے جوبائیڈن 16 لاکھ 30 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر ہیں جبکہ ٹرمپ 16 لاکھ 9 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور یہاں الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 10 ہے ۔ ایگزٹ پول میں یہ ثابت بھی ہوا اور صرف 4 فیصد ووٹروں نے کہا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے آخری ہفتے میں صدارتی امیدوار کا انتخاب کیا جبکہ 93 فیصد نے کہا کہ انہوں نے بہت پہلے ہی ذہن بنا لیا تھا کہ ان کا صدر کون ہوگا۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ نے 1984ءکے بعد دوسرا بہترین الیکشن ڈے دیکھا۔ ڈاو¿ جونز انڈسٹریل ایوریج میں 2 فیصد یا 550 پوائنٹس اضافہ ہوا۔ ایس اینڈ پی فائیو ہنڈرڈ انڈیکس میں 1.8 فیصد یا 58 پوائنٹس اضافہ ہوا ،کورونا وائرس کی وجہ سے قبل از وقت ووٹنگ اور پوسٹل بیلٹ میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا اور 3 نومبر کے الیکشن ڈے سے پہلے ہی 10 کروڑ سے زیادہ امریکی حق رائے دہی استعمال کرچکے تھے۔ کئی ریاستوں میں ووٹروں کو فون کالز موصول ہوئیں جن میں انہیں گھر سے نہ نکلنے کا کہا گیا، اس طرح کی تمام کوششوں سے متعلق ایف بی آئی اور نیویارک کے اٹارنی جنرل دفتر نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔واضح رہے کہ جوبائیڈن ملکی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں لا سکتے ہیں ، بائیڈن ،ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ، ایشیا، لاطینی امریکہ، افریقہ، یورپ، تجارت، دہشت گردی، اسلحہ کی فروخت، امیگریشن قوانین جیسے اہم فیصلے معطل یا مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں ۔امریکی عوام کی جانب سے بھی جو بائڈن سے پرانے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات دوبارہ مضبوط کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ٹرمپ کی ‘امریکہ فرسٹ’ یعنی ‘سب سے پہلے امریکہ’ کی پالیسی کو امریکی اتحادیوں اور خارجہ پالیسی ماہرین اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ روس اور شمالی کوریا جیسے امریکی حریفوں کے حوالے سے وہ کافی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔صدر ٹرمپ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی بڑے فیصلے کرنے میں جلد بازی نہیں کر سکے۔ایران جوہری ڈیل سے جلدی نکلنے میں بھی انہیں ایک سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے الگ ہونے کی ان کی بھرپور کوششیں اور پھر ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی کا فیصلہ بھی نومبر کی تین تاریخ کو ہونے والے انتخابات تک نافذ نہیں ہو سکتا۔ جرمنی سے ہزاروں امریکی فوجی واپس بلانے میں بھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔دوسری جانب جوبائڈن سینیٹ اور وائٹ ہاوس کے تجربے کو استعمال کرتے ہوئے جلد ہی کوئی تبدیلی لا پائیں گے۔ فلسطینی اتھارٹی کو امریکی امداد کی بحالی،اقوام متحدہ کے مختلف اداروں جیسے کہ یونیسکو اور انسانی حقوق کونسل میں امریکہ کی بطور رکن بحالی،یورپی اتحادیوں کے خلاف صدر ٹرمپ کے تضحیک آمیز رویے کا خاتمہ اور نیٹو ارکان سے تعلقات میں گرم جوشی لانا۔براعظم افریقہ میں چین سے مقابلے کے لیے امریکی اثرورسوخ میں اضافہ کرنا ، جاپان اور جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی حمایت کرنا، عدالت کے فیصلوں کا انتظار کرتے پناہ گزینوں کو میکسیکو بھیجنے جیسے معاہدوں کا خاتمہ، میکسیکو کے ساتھ دیوار کی تعمیر کے لیے مختص فنڈنگ کا متبادل استعمال، اوبامہ دور میں کیوبا کے ساتھ بحال کیے گئے تعلقات کو فروغ دینا شامل ہیں ۔