کلکتہ سے ہوتے ہوئے جب ہم لوگ مشرقی پاکستان کے ایک چھوٹے شہر میمن سنگھ پہنچے تو ہماری والدہ نے بڑی ذہانت کا ثبوت دیا تھا، اُنہوں نے ہم سبھوں کیلئے بہت سارے کپڑے جن میں عید و بقرعید کا جوڑا بھی شامل تھا کلکتہ کی نیو مارکیٹ سے خرید لیا تھا لیکن اُن بیچاری کو یہ علم نہ تھا کہ اُن کپڑوں کا رواج ابھی مشرقی پاکستان کے ایک چھوٹے شہر میں نہ ہوا تھا لہٰذا جب میں ایک شام ایک رنگیلے ٹی شرٹ پہن کر باہر کھیلنے نکلا تو میرے دوست نے مجھے نصیحت کی اور کہا کہ حالات اچھے نہیں ہیں اِس طرح کا کپڑا یہاں نہ پہنا کروں، اُس کی باتیں میرے ذہن کے دریچے میں ثبت کر گئیں، میں بارہا یہ سوچتا رہا کہ حالات کیوں صحیح نہیں ہیں، بچپنا مجھ پر غالب تھا میں اِس کٹھن سوال کو اپنے والد سے بھی پوچھنے سے ہچکچا رہا تھا بعد ازاں مجھے اپنی والدہ کی گفتگو جو وہ کسی دوسری خاتون سے کر رہی تھیں یہ پتا چلا کہ دنیا کی سب سے بڑی آدمجی جوٹ ملز میں چند ہفتے قبل لسانی فسادپھوٹ پڑے تھے جس سے چند لوگ ہلاک ہوگئے تھے لیکن اِس کا ذکر ، اِس کی شہرت ، اسکا ردعمل میمن سنگھ میں نہ ہونے کے برابر تھا البتہ ہمارے محلے میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی تھی، ہمارے گھر کے سامنے والے بنگلو میں ایک نئی فیملی منتقل ہوگئی تھی، جس کے سربراہ ایک باریش بزرگ بنگالی تھے، اُن کا عہدہ ریلوے میں ٹی ایکس آر کا ہوتا تھا ، اُن کی کئی لڑکیاں تھیں ، میری خواہش ہمیشہ اُن لڑکیوں کے قریب جانے کی رہتی تھی، لیکن بدقسمتی سے ایک شام ہم اُن کی لڑکیوں اور ایک لڑکے سے الجھ پڑے ، شام کو ٹی ایکس آر صاحب ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دینا شروع کردیا ، اُنہوں نے معذرت کرتے ہوئے میرے والد صاحب سے کہا کہ ” وہ بہت شرمندہ ہیں کہ اُن کے بچوں نے ہم لوگوں سے لڑائی کی ہے، اُنہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سارے لوگ اُن کے گھر جائیں ، اور اُن کے ساتھ ناشتہ کریں اور پھر اُن سے دوستی کرلیں ” ہم پہلی مرتبہ اُن کے گھر گئے ، اور اُن لوگوں نے مُری اور چائے سے ہم لوگوں کی تواضع کی اور پھر اُس دِن کے بعد سے اُنکا گھر ہمارا گھر بن گیا، اُن کے بچے جب بنگالی بولتے تو ہم لوگ سمجھ لیتے تھے ، اور جب ہم اُردو بولتے تو وہ لوگ بھی باآسانی سمجھ لیتے تھے، اُن کے گھر میں ایک نوجوان لڑکا مِلن جسے ٹی ایکس آر صاحب نے اپنایا تھا وہ بھی رہتا تھا، اُس کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ہندو تھا، ٹی ایکس آر صاحب نے پاکستانیوں کی طرح اُسے کبھی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
ایک مرتبہ ہماری والدہ نے راشن کا ایک فارم جو مکملا”بنگالی زبان میں تھا اُسے پُر کرانے کیلئے میرے حوالے اُس لڑکے کو بھیجا، اُس بنگالی لڑکے نے جب دیکھا کہ فارم صرف بنگالی میں ہے تو سخت ناراضگی کا اظہار کیا، اُس نے کہا کہ اُردو بھی پاکستان کی قومی زبان ہے بہرکیف زبان سے کہیں زیادہ مجھے ٹی ایکس آر صاحب کی ایک لڑکی جس کا نام پُتل تھا عزیز تھی ، وہ بہت خوبصورت تھی ، ایک مرتبہ تو میں نے اُس کے بھائی مِلن سے یہ بھی کہہ دیا کہ ” میں پُتل کو بہت چاہتا ہوں” اُس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اُس سے شادی کروگے؟میں نے جواب میں ہاں کہہ دیا، وہ فورا”اُس لڑکی کو بلا لایا، اور کہا کہ یہ لڑکا تم سے شادی کرنا چاہتا ہے، پُتل شرماتے ہوئے دوڑ پڑی۔
تاہم یہ خوشگوار تعلقات زیادہ دِن تک پروان نہیں چڑھے ، کیونکہ میرے والد کا تبادلہ میمن سنگھ سے بھیرب بازار ہوگیا لیکن میری والدہ نے میرے بڑے بھائی کی بہت بڑی ذمہ داری کو ٹی ایکس آر صاحب کی بیگم کے حوالے کردیا، اُن کی بیگم میرے بڑے بھائی کیلئے بھی کھانا پکانے لگیں، کبھی کبھی جب میں میمن سنگھ کا دورہ کرتا تو کھانا اُنہی کے گھر کھاتا تھا، ایک چھوٹے سے پٹرا پر بیٹھ کر پلیٹ میں چاول جس میں گھی کا ایک چمچہ شامل ہوتا تھا کسی سبزی کے ساتھ ہم کھاتے تھے، میرے بڑے بھائی کو ہم لوگوں کے ساتھ بھیرب بازار نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے اُردو اسکول میں میٹرک کے طلبا کو میٹرک پاس اساتذہ پڑھایا کرتے تھے، شاید اُن کی ملازمت بھی بغیر تنخواہ کے رضاکارانہ ہوا کرتی تھی۔بھیرب بازار دریائے میگھنا کے کنارے ایک چھوٹا سے قصبہ تھا. وہاں کی سر سبز و شاداب زمین جس کے چپے چپے میں بڑے بڑے درخت اُگے ہوئے تھے، اور اُن درختوں کے سائے میں مقامی لوگوں کے مکانات یا جھونپڑیاں بنی ہوتی تھیں، دس فیصد لوگ شعبہ زراعت سے منسلک تھے، باقی محنت و مزدوری کیا کرتے تھے، ہمارے گھر کے بڑے سے پچھواڑے میں جب کوئی مزدور کاشتکاری کیلئے آیا کرتا تھا تو ہماری والدہ اُسے دِن بھر کی دیہاڑی 5 روپے اور دِن کا کھانا دے دیا کرتی تھیں۔
بنگالیوں کی یہ خواہشات رہتیں کہ ریلوے کے ملازمین خصوصی طور پر غیر بنگالیوں سے اُن کے تعلقات بہتر سے بہتر رہیں، وہ جب مجھ سے گفتگو کرتے تو اُن کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑنے لگتی، کیونکہ مجھے بھی بنگالی آتی تھی،بی ڈی کے انتخابات میں اُنہیں کسی کا ووٹ ملے یا نہ ملے لیکن غیر بنگالیوں کا ووٹ اُن کیلئے باعث افتخار ہوا کرتا تھا، ایک امیدوار تو ہمارے والد کو خصوصی طور پر یہ کہنے کیلئے آیا تھا
کہ اُس نے ووٹرز کی خاطر مدارت کیلئے ایک گائے ذبح کی ہے، اور وہ اُس کی بریانی بنائیگالیکن بھیرب بازار میں کس نے میری زندگی بچائی تھی؟ یہ ہماری ماسی کی بیٹی تھی جو دریا کے کنارے کپڑے دھو رہی تھی اور جب اُس نے دیکھا تھا کہ میں ڈوب رہا ہوں اور اپنے ہاتھ کے اشاروں سے لوگوں سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں، اُس نے چیخ چیخ کر لوگوں کی توجہ میری جانب مبذول کرائی تھی اور چند بنگالی نوجوان مجھے کھینچ کر ساحل پر لے آئے تھے۔آج جب میں سوچتا ہوں کہ یحییٰ خان نے آخر کیا سوچ کر فوجی ایکشن کا حکم دیا تھا ، آخر اُسے کیا اختیارات تھے کہ وہ بنگالیوں کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حقوق کا قتل کردے، اُن کے خوابوں اور اُن کے تصورات کو چکنا چور کردے، دراصل آرمی ایکشن ہی سقوط ڈھاکہ کا موجب ہے۔