جیو چینل کا شیرازہ بکھر چکا ہے!!!

0
119
حیدر علی
حیدر علی

میں بھی اُن محب وطن پاکستانیوں میں شامل ہوں جو بلا جھجک اِس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کا ڈرامہ معیار کے لحاظ سے بھارتی ڈرامہ سے زیادہ جاذب نظر ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوسرے پاکستانی بھی میری طرح کبھی بھارتی ڈرامہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اگر انٹرنیٹ کی خرابی کی بنا پر پاکستانی ڈرامہ نہ آرہا ہو تو پھر بھی وہ ریموٹ کے بٹن کو دباتے ہی رہتے ہیں کہ شاید کبھی انٹرنیٹ آجائے اور وہ اپنے محبوب پروگرام سے رونا دھونا دیکھ سکیں لیکن صرف انٹرنیٹ کا مسئلہ نہیںبلکہ کبھی کبھی تو جیو کا چینل دو دو دِن تک غائب رہتا ہے اور جب گھر کو واپس لوٹتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اُن کا ہر دلعزیز ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، اور اب شاید اُنہیں آخری انجام کو دیکھنے کیلئے چند ماہ انتظار کرنا پڑیگا کیونکہ جیو چینل کی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کے اصول پر قائم ہے اور اُس کا ڈرامہ بھی کئی کئی بار دوبارہ نشر کیا جاتا ہے۔ ڈرامہ میں کام کرنے والے اداکاروں اور دوسرے کارکنوں کو پہلے ڈدامہ کی بانسبت 100 روپے کی بجائے 10 روپے تھمادیئے جاتے ہیں۔ جب ڈرامہ تیسری مرتبہ نشر ہوتا ہے تو 10 روپے کی بجائے 5 روپے دے دیئے جاتے ہیں۔ اگر صرف انٹرنیٹ کا مسئلہ ہوتا تو اُسے بھی ہضم کیا جاسکتا تھالیکن جیو چینل کے مسائل اور بھی ہیں ، عموما”ڈرامہ میں منظر کچھ، اور ڈائیلاگ کچھ اور ہوتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے میں جیو چینل پر چلنے والا ایک ڈرامہ دیکھ رہا تھا تو میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ منظر یہ تھا کہ پولیس کسی گھر پہ چھاپہ مارتی ہے لیکن جو ڈائیلاگ مجھے سنائی دے رہے تھے وہ یہ تھے کہ ” ہاں میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ میںتمہارے بارے میں دِن رات سوچتی رہتی ہوں، اِسی وجہ کر مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا ہے لیکن مجھے اِس کی کوئی پرواہ نہیں ، کیونکہ میرے والد وزیراعلیٰ کے اردلی ہیں اور اُن کی رشوت سے آمدنی کسی کالج کے پرنسپل سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ بولو کہ اب تم مجھ سے شادی کروگے یا نہیں؟”دوسرے دِن بھی جیو چینل کے ڈرامے میں وہی ساؤنڈ سسٹم کی خرابی کا سامنا کرنا پڑگیا۔ ڈرامہ جو چل رہا تھا اُس کا منظر تھا کہ ایک جوڑا ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر رومانٹک انداز میں گفتگو کر رہا ہے، ہیرو اپنی جان جاناں کے ہاتھ کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے، بلکہ بعد ازاں وہ اُسے ایک انگوٹھی بھی پیش کرتا ہے ، لیکن جو مکالمہ سنائی دے رہا تھا وہ ” بزنس کی حات خراب ہے ، لیکن تم کفایت شعاری کا نام تک نہ لے رہی ہو، روزانہ شاپنگ کیلئے چلی جاتی ہو۔ آج سے ناشتے میں کوئی چیز کیک یا انڈا آملیٹ نہ ہوگا ۔ وہی پرانے طرز کی روٹی اور آلو کی بھاجی ہوا کرے گی۔ اور میں ڈیفنس سے لالو کھیت واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کون ماہانہ کرایہ دو لاکھ روپے ادا کرے گا۔ اور ایک لاکھ الیکٹرک کی بِل ۔میں کہتا ہوں کہ آف کردو ساری لائیٹوںکو۔ ” اور پھر تیسرے ڈرامے میں ساؤنڈ سسٹم کا یہی حال تھا ۔ چلنے والی فلم میں یہ دکھایا جارہا تھا کہ ایک کشتی جس پر لفظ ”جیو ” کند تھا ڈوب رہی تھی۔ لیکن بیک گراؤنڈ سے جو آواز آرہی تھی اُس میں مکالمہ جو سنائی دیا وہ تھا” ہم ایک جفاکش اور نڈر قوم ہیں ۔ میں اُسی قوم کا ایک فرد ہوں ۔ میں اپنے ملک کی ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کرونگا، کسی کو یہ موقع نہ دونگا کہ وہ اِس پر قابض ہو ۔ میں دشمنوں سے لڑنے کی تیاری کر لی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بے تیغ لڑنے کیلئے بھی تیار ہوں۔ میرے جسم میں ایک جنگجو قوم کا خون دوڑ رہا ہے ۔ اِ س سے قبل بھی میں اپنے دشمنوں کو شکست دے چکا ہوں۔ میں اُنہیں للکار رہا ہوں کہ وہ آئے اور مجھ سے مقابلہ کرے۔ میرا دشمن یہ نہ بھولے کہ مجھ سے لڑنے کا اُسے بھاری نقصان اٹھانا پڑیگا۔ میں اُس کے خلاف عدالت میں بھی مقدمہ دائر کر سکتا ہوں ، اور وہ قانونی کاروائی میں پھنس سکتا ہے، اُسے جرمانے بھی دینے پڑ سکتے ہیں۔ لہذا بہتر ہے کہ وہ مجھ سے سمجھوتہ کرلے۔ ” ارے بھائی فی الحال تو اپنی کشتی بچاؤ جو ڈوب رہی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے جیو نے تو اپنا بیڑا غرق کردیا ہے ۔ جیو ڈرامہ کی ہر کہانی نکاح ، شادی اور طلاق پر مبنی ہوتی ہے۔ کہانی کے اندر مزید کہانیوں کو گھسا کر ڈرامہ کو طویل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے بوریت پیدا ہوجاتی ہے ، اور ناطرین یا تو چینل تبدیل کر دیتے ہیں یا ٹی وی ۔ کہانی ویسے بھی پھس پھسی ہوتی ہے ۔ جیو ڈرامہ کی ایک کہانی میں یہ منظر پیش کیا گیا تھا کہ بیوی اپنے شوہر کو ایک بھر پور طمانچہ رسید کرتی ہے جو ایک انتہائی اخلاق سوز حرکت ہے۔ متعدد کہانیوں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ لڑکی اپنے گھر سے فرار ہوجاتی ہے ، اور رات کی تنہائی میں شہر کی شاہراہوں پر تن و تنہا گشت کرتی رہتی ہے۔ اُس کی حفاظت کیلئے آسمان سے ایک شہزادہ اُتر پڑتا ہے ۔ وہ انتہائی خوبصورت اور دولتمند ہوتا ہے۔ حقیقی دنیا میں یہ ایک ناممکن بات ہے ، البتہ لڑکی کے ساتھ ایک ہولناک سانحہ کا ہوجانا ممکنات میں شامل ہے۔ ہر ڈرامہ کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کوئی لڑکی یا خاتون کام کاج نہیں کرتی ہیں، ہر کوئی صبح اٹھ کر ایک دوسرے سے لعن طعن یا لڑائی جھگڑا شروع کردیتی ہیں، اور اُسی طرح اُن کی زندگی گذر جاتی ہے۔ جیو کا ایک نہیں بلکہ دو چینلز ایک ساتھ چل رہا ہوتا ہے تاکہ ناظرین کا وقت ضائع کرکے خود کمرشل کے ذریعہ منافع خوری کرسکے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ جیو کے سی ای او شکیل الرحمن صاحب کیا اپنے چینل کی کارکردگی سے آگاہ نہیں ہیں ، اور اگر ہیں تو اپنی آنکھیں بند کیوں رکھے ہوے ہیں؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here