نیویارک (پاکستان نیوز) گو کہ پاکستانی عوام کیلئے فروری کا رواں ہفتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی انتخابات کا انعقاد بے شک ملکی سیاست کے استحکام کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے لیکن پاکستانی عوام کے ذہنوں میں جمہوریت ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی جرنیلوں کے سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے جبکہ ہماری عدلیہ میں بھی اس میںکسی صورت پیچھے نہیں ہے ، ملک کے سیاسی مستقبل کو تاریک کرنے میں ان دو اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ، جس کا اندازہ اس بات سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کرپشن، جعلسازی، مفاد پرستی سمیت گھنائونے الزامات لگا کر ملک سے نکالے جانے کے بعد شریف قیادت کو اب دوبارہ باعزت طور پر اقتدار کے منصب پر بٹھایا جا رہا ہے ، موجودہ انتخابات ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلنے کی گھنائونی ساز ش ہے ، سابق صدر باراک اوباما کے پاکستان اور افغانستان کے لیے ایڈوائزر بروس ریڈیل نے انکشاف کیا کہ پاکستانی جرنیلوں کو مارکیٹ اشیا کی طرح خریدا اور بیچا جا سکتا ہے ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر باجوہ کی زیر پرستی کچھ جرنیل اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک میں جعلی الیکشن کے انعقاد کی گھنائونی سازش میں ملوث ہیں ، اس وقت ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے نئی سوچ کی قیادت، نواجوان لیڈرز کی اشد ضرورت ہے جوکہ ملک کو نئی سمت میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔معروف مصنف ،کالم نگار محبوب اے خواجہ اور نیویارک ٹائمز میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کی اکثریت کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان میں سیاسی تاریخ کو نہایت ہی بہترین انداز میں کھنگالا گیا ہے اور پاکستانی عوام کی توقعات اور خواہشات کا جس بے دردی سے قتل عام ہوتا آیا ہے اس کی نظیر دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملتی۔ سال 2024ء کی اہمیت اس پہلو سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ امسال دنیا بھر میں 60 سے زائد ممالک میں انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جو کہ دنیا کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے۔ ایک ہی روز آزاد ہونیوالے پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت جو کہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اورچوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے میں انتخابات کا عمل دنیا میں جمہوریت کی اہمیت اور عمل دخل کیلئے ایک مثالی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ رپورٹ میں واشگاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستانی کئی دہائیوں سے ایسے جذبات سے دو چار ہیں کہ جن میں سر فہرست1977 ء میں ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک فوجی بغاوت میں معزول کر دیا گیا جس نے ملک کو آمریت اور مارشل لاء کے ایک طویل دور میں ڈال دیا۔ اسی وزیر اعظم کو دو سال بعد پھانسی دے دی گئی، اور اس دن کی تاریکی نے پاکستانی عوام کی امنگوں کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گلا گھونٹ دیا۔ عوامی تناظر میں اس دن کو خوفناک سے بھرپور خالی گلیاں، اخبارات نے صفحہ اول پر بلاک حروف میں اسے یوم سیاہ قرار دیا۔ 1988 ء میں فوجی حکمرانی کا خاتمہ ہوا، اس کے بعد جمہوری حکمرانی کی سیاسی طور پر افراتفری کی دہائی اور پھر فوجی آمریت کا ایک اور دور آنے کے باوجود جمہوری دور کو ایک بار پھر خوش آمدید کہا گیا۔ جمہوریت کے ساتھ تجربات 2008 ء میں دوبارہ شروع ہوگئے، لیکن اقتدار کی بار بار ہونے والی کھلم کھلا چوریوں نے عوام کو ششد ر اور حیران کر کے رکھ دیا۔ نیویارک ٹائمز اپنی رپورٹ میں مزید لکھتا ہے کہ جمعرات کو ہونیوالے انتخابات عمران خان کے بغیر آگے بڑھیں گے، مقبول سابق وزیراعظم جنہیں گزشتہ ہفتے ریاستی راز افشا کرنے اور بدعنوانی کے قابل اعتراض الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں 10 سال اور 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔)جب وہ 2018 میں منتخب ہوئے تو انہوں نے پاکستان کو کرپٹ خاندانی سیاست سے آزاد کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ان کی میعاد چار سال بعد اسی طرح ختم ہوئی جس طرح جمہوری حکمرانی کے پچھلے ادوار کے تھے۔ مسٹر خان کی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کو اس ہفتے ہونے والے انتخابات میں سخت چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں اس کے اراکین کے خلاف آمرانہ کریک ڈاؤن بھی شامل ہے۔ پارٹی کی سابق شخصیات کو اب آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے پارٹی کو اپنے مقبول انتخابی نشان کرکٹ بیٹ کے استعمال سے بھی روک دیا ہے۔ عوامی تناظر میں ہم مایوسی اور فضولیت کے احساس کے ساتھ اس ہفتے انتخابات میں جائیں گے۔ پاکستانی، خاص طور پر نوجوان طبقہ جو پہلی بار ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، اپنے آپ سے پوچھ رہے ہیں: ایسے سیاستدانوں کو ووٹ کیوں دیں جن کے پاس اقتدار حاصل کرنے اور اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نظر نہیں آتا؟ سڑکوں پر ہر طرف اداسی کا سماں ہے۔ انتخابی مہم خاموش ہے اور ماضی کے انتخابات کے سیاسی گانے، جھنڈے، بینرز اور دیگر ٹریپنگ نا صرف کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سے کم از کم کچھ جوش اور تہوار جیسا ماحول پیدا ہوتا تھا جو پاکستان کے 245 ملین لوگوں میں سے بہت سے لوگوں امید کی ایک نئی کرن ثابت ہوتی تھی۔ پاکستان کو آج جن جن مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے انتخابات کی اداس کڑیاں ان مشکلات سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہیں۔مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے نشان زد ایک معاشی بحران، دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے لیے پہلے سے ہی گھر، تعلیم اور صحت کی مناسب دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے ملک کے لیے چیلنجز کو بڑھا دیتا ہے۔پھر سونے پر سہاگا کہ پاکستان میں نام نہاد جمہوری پارٹیاں، خاندانی سیاست، فوج کی مداخلت ، غیر مقبول عدالتی فیصلے ،نااہل سیاستدان، قابل لوگوں کی سیاست میں عدم دلچسپی ، عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ، مہنگائی کا طوفان اس بداعتمادی کے اہم عناصر ہیں۔ پاکستانی انتخابات ووٹوں کی دھاندلی، سیاسی ہارس ٹریڈنگ اور بدعنوانی سے نشان زد ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کون جیتتا ہے، عوام تو لامحالہ مایوس ہوتے ہیں کیونکہ سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں اپنی توجہ عوام کی خدمت سے زیادہ اقتدار میں رہنے پر مرکوز رکھتے ہیں۔ ان تمام تلخ تجربات کے باوجود ووٹرز پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے نمائندوں کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ توقع کی جارہی ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) سادہ اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی۔ خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اس سے قبل تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور آخری مرتبہ ان کی وزارت 2013 ء میں واضح اکثریت کے ساتھ تھی۔انتخابات میں 150 سے زیادہ پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔کہا یہ جا رہا ہے کہ آزاد امیدوار انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کی تشکیل اور روڈ میپ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ سے زیادہ ہے جو جمعرات کو اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ عمران خان کیخلاف غیر مقبول عدالتی فیصلوں کے باوجود عمران خان کا اثر و رسوخ اب بھی واضح ہے اور یہ بات سروے سے بھی واضح طور پر نظر آتی ہے جس کے مطابق مطابق آٹھ فروری کے انتخابات میں رائے دہندگان کی اکثریت پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دینا چاہے گی۔رائے دہندگان میں 33.7 فیصد نے تحریک انصاف کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔اس کے ساتھ 35 سالہ بلاول بھٹو زرداری بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جو ان کی سیاست دور اندیشی کا امتحان ہے۔ اس سے قبل انہوں نے عمران خان کی حکومت گرانے والے اپوزیشن اتحاد کی 2022 میں قائم ہونے والی حکومت میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا تھا۔ حالانکہ اس بات کی امید نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات بڑی کامیابی حاصل کرے گی اور وہ مرکز میں دوسروں کی مدد کے بغیر تنہا حکومت بناسکیں گے۔اس کے باوجود جنوبی سندھ میں ان کا اثر ورسوخ واضح ہے اور وہ وہاں کامیابی کی امید ہے۔ کسی بھی سیاسی اتحاد میں پیپلزپارٹی کا کردار نہایت اہم ہوگا۔ انتخابات سے پہلے کے ماحول سے متعلق بہت کچھ کہنے کو ہے۔ انتخابی تشہیر اور مہم ، انتخابی اتحاد اور دیگر بہت کچھ لیکن ہمارے نزدیک جو سب سے اہم ہے وہ پاکستان کا امن و استحکام ہے۔رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ پاکستان آمرانہ انارکی، سیاسی بدانتظامی، ناانصافی اور عالمی معاملات میں انحطاط کی تصویر پیش کرتا ہے اور ایک حقیر مستقبل کے چیلنجوں سے گھبراہٹ کا تصور پیش کرتا ہے۔ سیاسی تضاد آمرانہ مطلق العنانیت کی ایک فریبی ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے جس کی قیادت بدمعاشی، بددیانتی اور متنوع بھیڑ کی اذیت ناک مصیبتوں سے ہوتی ہے۔ یہ عمل چند جرنیلوں اور سپریم کورٹ کے چند ججوں کے کردار، دھوکہ دہی اور دھوکہ دہی پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔یا تو رشوت دی گئی یا زبردستی، قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اپنی حیثیت، صلاحیت اور اختیار سے بڑھ کر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو قید کرنے کے لیے، پی ٹی آئی کے رہنما کو سیاسی طور پر تیار شدہ مقدمات کے جھوٹے بہانے ایک ٹھگ، قاتل اور مجرمانہ طور پر فرد جرم عائد کر کے شریف برادران کو دوبارہ پاور ہاؤس میں واپس لایا گیا۔ کیا اس بحران کے مرتکب افراد کے لیے وہی اقدار مشترک ہیں؟ 8 فروری کو منعقدہ قومی انتخابات، نئے دور کے لوگوں کی تنزلی اور ملک کے عدم استحکام کی قیمت پر حاصل ہونے والی کامیابی کا دعوی کرنے کا محض ایک دھوکہ دہی ہے۔