سوشل میڈیا پلیٹ فارم اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ یہ آپ پرمنحصر ہے کہ آپ کیا پسند کرتے ہیں۔ جب سے میں نے دوستوں کو اسوۂ حسینی کی طرف راغب کرنا شروع کیا ہے۔ نئے نئے الزامات کا سامنا کر رہا ہوں حالانکہ بارہا لکھ چکا ہوںکہ میں آئمہ کرام کی محبت اور محبت میں خرچ کئے گئے مال کا منکر نہیں ہوں۔ یقینا یہ پسندیدہ کام ہے۔ باعث اجر ہے۔ صرف میں کہتا ہوں کہ آگے چلو اور وہ کام جو سیدنا امام حسین نے انجام دئیے ہیں وہ کیا ہے؟ حق کا ساتھ دینا، غلط آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا، نماز کی پابندی کرنا، تلاوت قرآن کرنا، اچھا عجیب ہوگ ہیں۔ میں کہتا کچھ ہوں اور وہ سمجھتے کچھ ہیں۔ میں اﷲ کا بندہ ہوں اور سرکار دو عالم کا امتی ہیں اور سرکار ہی میرے رول ماڈل ہیں۔ بس آگے فل سٹاپ۔ جو کوئی بھی اچھی بات کہے گا اس کو اچھا کہوں گا اگر بری بات اپنا بھی کہے گا تو اسے برا ہی کہوں گا۔ بہرحال دوستوں کا اصرار تھا کہ آ پ بتائیں کس کا ساتھ دیں، کس کو ووٹ دیں۔ فلاں فلاں آئیے ۔میں اپنی ہڈ ورتی لکھ رہا ہوں۔ آزمائش شرف ہے میں 1972ء میں ایک مسجد کا خطیب مقرر ہوا۔ جوانی کا عالم جذبہ جوان، کام کرنے کی دھن ، چند دنوں کے بعد نمازیوں نے کہا مولوی صاحب ہماری مسجد کمیٹی ایک آدمی نے یرغمال بنارکھی ہے انتہائی بدطینت اور رسہ گیر ہے ، ہماری جان کس طرح چھوٹ سکتی ہے۔ میں نے کہا بالکل چھوٹ سکتی ہے۔ مگر آپ کو حضرت امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ اکثریت اگر آپ کے ساتھ ہے تو پکے رہیں۔ شام کو ایک بزرگ بابا یوسف کھلونے بیچتا تھا۔ شام کو ریڑھی گھر چھوڑ کر مسجد آجاتا تھا۔ مسجد کی صفائی کرتا تھا اذان دیتا تھا۔ غریب تھوڑا سا پڑھا لکھا بھی تھا۔ میں نے کہا اس سے بات کریں۔ اگر وہ جو سروس مسجد کو دے رہا ہے ، صدر بننے کے بعد بھی جاری رکھے تو اس کو صدر بنا دو۔ پہلے تو بابا یوسف نہیں مانا۔ مگر اہل محلہ نے مجبور کرکے اسے صدارتی امیدوار مقرر کر دیا۔ نہ ہی کوئی فیملی، نہ ہی قبیلہ۔ نہ ہی وہ سوشل ورکر تھا۔ مگر مسجد کا خادم تھا۔ دل و جان سے خدمت کرتا تھا۔ جب اہل محلہ نے اسے صدارتی امیدوار مقرر کیا
کیا۔ تو موصوف تلملا اٹھے۔ اپنی بے عزتی محسوس کی۔ بابا یوف کو ڈرایا دھمکایا۔ بابا جی نے کہا میں شوق سے نہیں بلکہ محلے والوں نے مجھے مجبور کیا ہے۔ محلے والوں سے بات کرو۔ قصہ مختصر اہل محلہ نے بھاری اکثریت سے باباجی یوسف کو جتوا دیا۔ پہلی مرتبہ مدتوں بعد اہل محلہ کو پتہ چلا کہ مسجد کی آمدن کیا ہے؟ بابا جی نے مسجد کو چار چاند لگا دئیے۔ ماربل، پنکھے، پردے، مسجد جگ مگ کرنے لگی۔
میرے عزیزو! آپ نیت کرلیں کہ ہم نے ایماندار قیادت منتخب کرنی ہے۔ قبیلہ، برادری، تحفظات اور مفادات ایک طرف رکھ کر اپنے محلے سے کسی نیک نام آدمی کو منتخب کریں اور سارے اس کام پہ لگ جائیں ۔ انشاء اﷲ بڑے بڑے برج گر جائیں گے۔ اس میں ظاہر ہے اداروں کے بھی مفادات ہوتے ہیں۔ ہم مجبور بھی ہیں۔ اگر عوام اٹھ کھڑے ہوں اسوۂ حسینی کا علم ہاتھ میں ہو تو فتح یقینی ہے۔