طالبان نے کابل سمیت پورے افغانستان کو فتح کرلیا ہے اور انکی کوشش ہے کہ ماضی کے برعکس اپنا ایک نرم تصور عوام اور عالمی رائے عامہ کے سامنے لائیں، اسلئے انہوں نے کسی برطانوی یا امریکی طالبان کو میڈیا کے سامنے لاکر خوب اچھی انگریزی میں بریفنگ دلائی ہے اور اعلان کیا ہے کہ مخالف سوچ رکھنے والے افغان لوگوں کے ترجمان رہنمائوں یا جماعتوں سے مذاکرات جاری ہیں اور کوشش یہی ہے کہ افہام وتفہیم کے ذریعے کسی متفقہ لائحہ عمل کو اختیار کیا جائے لیکن ساتھ ہی ساتھ لاٹھیوں اور کوڑوں کا استعمال بھی عوامی اجتماعات پر بے رحمی کے ساتھ جاری وساری ہے۔کچھ ویڈیوز گولیاں چلانے اور غیر طالبان لوگوں ہزارہ عوام کو قتل کرنے کی بھی سامنے آئیں ہیں جس میں کھلے عام سڑکوں پر لوگوں کو روک کر گولیاں ماری جارہی ہیں۔ایک نوجوان کو چوری کے جرم میں ہاتھوں کو کلائی سے کاٹ کر معذور کیا جارہا ہے۔خلفائے راشدین کے ادوار میں اگر چوری کرنے پر مجرموں کے ہاتھ کاٹے گئے تھے تو اپنی حکومت میں کسی کتے کی بھوک سے موت کی ذمہ داری بھی خود خلفاء نے لی تھی۔فلاحی پہلا تصور اسلام نے دیا اور حکمرانوں صرف سزائوں کا حکمران نہیں بلکہ رعایا کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا بھی ذمہ دار قرار دیا۔ایسے نہیں کہ سزا جزا کا اطلاق بے بس لوگوں پر ہوگا نہیں ہرگز نہیں پہلے طاقتور پر ہونا چاہئے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی تو افغانستان کی ساری دولت جو انہیں امداد کے طور پر ملی تھی ، وہ اپنے بکسوں میں بند کرکے بھاگ گئے جو غریب افغان کل بھی غربت کی چکی میں پس رہا تھا ، آج بھی پیسا جا رہا ہے۔گھن کی طرح اسکی بنیادی ضرورت مہیا کئے جانے کی ذمہ داری افغان حکومت کی ہے جو بھی برسراقتدار حکومت ہے اسکی اولین ذمہ داری افغان عوام کی حفاظت اور کفالت ہے پھر اسی حکومت سزائوں کو بھی متفقہ نہیں تو اکثریتی رائے اور قانون سازی کے ذریعے کرسکتی ہے۔اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی ممالک کی ہر حکومت پہلے عوام کا فلاحی ذمہ داری پوری کرے۔ لوگوں کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست کرے پھر ان کا احتساب کرے اگر فقطہ سزائوں پر سارا زور دیا جائیگا تو وہ معاشرہ اور عوام بدظن اور بددل ہوجائیں گے۔طالبان کی پچھلی حکومت نے بدترین طرز حکومت کا مظاہرہ کیا تھا یہ ایک اچھی بات ہے کہ انہیں اپنی غلطیوں کا کچھ نہ کچھ احساس تو ہوا لیکن افغانستان سے بھاگنے والے افغانیوں کا خیال ہے کہ طالبان کی سفاکانہ سوچ کبھی نہ بدلے گی جس کا کچھ مظاہرہ کابل ائیر پورٹ کی طرف جانے والے لوگوں پر بے رجمانہ تشدد کے ذریعے دنیا دیکھ چکی ہے۔طالبان کو سمجھنا چاہئے کہ افغانستان کے ذرائع آمدنی یا وسائل نہایت محدود ہیں اگر عالمی سطح پر ان کا تصور ایک بار پھر ماضی کی طرف لوٹا تو وہ تنہا ہوجائیں گے اور آج کا سعودی عرب یا اسلامی بلاک بھی انکی کوئی امداد نہیں کر پائے گا۔افغانستان کے بچے اور بچیاں نہایت ذہین ہیں انہیں کمپیوٹر سافٹ وئیر کے شارٹ کورسز کروا کر گھروں سے بھی کام کروایا جا سکے تو وہ اچھا خاصا زرمبادلہ ملک کے لئے کما سکتے ہیں ۔ اس طرح کی کاٹیج انڈسٹری اور گھریلو صنعت کے مواقعہ پیدا کرکے ملک کی مجموعی مالی صورتحال کو مستقل بنیادوں پر بہتر کر سکتے ہیں۔اس طرح بیرونی امداد پر انحصار کم کرکے وہ اپنے ملک کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ معاشی آزادی کے بغیر کوئی قوم بھی کلی طور پر آزاد نہیں رہ سکتی ہیں انہیں بنگلہ دیش کے معاشی ماہر محمد یونس اور ملیشیا جیسے حکمران مہاتیر محمد جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ایسے لوگوں کی ضرورت تو پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ملکوں کو ہے لیکن افغانستان کے مخصوص حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک فوراً اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے اسی سے پہلے کہ پھر ایک تنازعہ کھڑا ہو جائے پھر اک جنگ چھڑ جائے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں سے جنگ وجدل کے علاوہ نہ کچھ دیکھا نہ کچھ سیکھا۔ایک بھاری رقم دو ٹریلین غالباً دو کھرب ڈالروں کے خرچہ اور بھرپور امریکی تربیت کے باوجود نہ افغانستان کے مستقبل میں کوئی خاطر خواہ بہتری لائی ہے نہ ہی بچاری افغان عوام کی حالات میں بہتری آئی ہے۔ہزاروں افغانوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں پھر بھی آج افغان دربدر ہیں۔اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور مغرب نواز حکومتوں نے ڈالروں کی بارش سے اپنے بکیے بھرے۔آج افغانستان طالبان کے خوف وہراس اور قتل وغارت گری کے خوف سے نڈھال ہے ، اللہ رحم کرے۔