پاکستان کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال پر بڑا سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، شاید اب وقت اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ جو ہے جیسا ہے چلنے دیا جائے، محکمہ شماریات کی موجودہ حکومت کے سابقہ اڑھائی سالوں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں ہونے والے اضافے پر جو رپورٹ جاری ہوئی ہے وہ ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ بہت سارے قارئین جانتے ہیں مگر پھر بھی بتانا چاہوں گا کہ ادارہ شماریات سرکاری ادارہ ہے جو کہ پاکستان میں اشیائے خودونوش کی قیمتوں کا جائزہ لے کر ہفتہ وار یا مہینہ وار اور سالانہ تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ اڑھائی سالوں میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں 100 سے لے کر 300 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس میں پھل، سبزیاں، گھی،دودھ، دہی سمیت بے شمار اشیا شامل ہیں۔ بجلی، گیس، ادویات اور پٹرول کی قیمتوں کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتی اراکین کیلئے صورت دکھانے کے قابل نہیں رہتی جا رہی۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ کرپشن کی درجہ بندی کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نئے پاکستان میں کرپشن چار درجے مزید بڑھ جانے کی نشاندہی کی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کا نمبر 120 تھا جواب چار نمبر پر آکر 124 ہوگیا ہے۔سابقہ دور میں پاکستان کرپشن انڈیکس میں 115 ویں نمبر پر موجود تھا۔ ایمانداری،دیانت داری، مخلص، عظیم لیڈر سمیت کوئی مثبت سابقہ یا لاحقہ نہیں چھوڑا گیا جس سے موجودہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو نہیں نوازا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان القابات کو رٹانے کے لیے قوم کی برین واشنگ پر کروڑوں روپے لگائے گئے۔ آج بھی اس بیانیے کو فروغ دینے کے لیے سخت جدوجہد کی جا رہی ہے۔
1۔ سابقہ حکمران چور ڈاکو تھے، عمران خان ایماندار لیڈر ہے 2۔ پاکستان کو بحرانوں سے عمران خان نکال سکتا ہے۔
3۔ عمران خان خود اچھا ہے مگر اس کو ٹیم اچھی نہیں ملی۔ 4۔ 70 سال کا گند پانچ سالوں میں کیسے صاف ہوگا۔ 5۔ عمران خان مافیا سے مقابلہ کر رہا ہے۔ 6۔ ہمیں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
یہ بالکل بھی نہیں کہ سابقہ ادوار میں مہنگائی نہیں ہوتی رہی، یا کرپشن کے بازار گرم نہیں رہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قدر اندھیر نگری کا راج کبھی نہیں تھا۔موجودہ حکومت کو کون سے ایسے چیلنجز ملے جس سے وہ نبردآزما ہوئی تو آپ کو کوئی بھی ایسا بڑا بحران نظر نہیں آئے گا۔مگر سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا ق لیگ کے ہمراہ نو سالہ دور ختم ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو جو بڑے چیلنجز ملے ان میں دنیا کی تاریخ کا بدترین معاشی بحران 2008 کا شامل ہے۔اس بحران نے دنیا کی بڑی بڑی اقتصادی قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ دبئی سے لے کر یورپ اور امریکہ تک اس معاشی بحران نے حکومتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کو ڈکیٹٹر پرویز مشرف کی پالیسیوں کے باعث ورثے میں دہشت گردی بھی ملی، دنیا کی تاریخ میں تیل کی بلند ترین قیمت خرید بھی اسی زمانے میں رہی جو کہ غالبا 140 سے لے کر 150 ڈالر فی بیرل تک تھی۔لوڈ شیڈنگ کا بحران پاکستان پیپلز پارٹی کو ورثے میں ملا۔ ان تمام مسائل سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کس طرح نبردآزما رہی اس کا فیصلہ 2013 کے انتخابات میں ہوا۔ مسلم لیگ نون کو ورثے میں دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، افراط زر کی گرتی ہوئی صورتحال، بڑھتا ہوا ڈالر اور تیل کی قیمتیں وغیرہ ملیں۔ 2017 ڈالر قیمت 100 روپے کے آس پاس رہی، جبکہ 2018 میں 110 تک پہنچی۔ پیٹرول کی قیمتیں 70 سے 80 روپے کے درمیان رہی، دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا۔ نون لیگ نے قیمتوں کو مستحکم رکھا۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پاکستان میں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا بحران ختم ہو چکا تھا۔ معاشی صورتحال بہتر سے بہتر ہونے کے چانس پیدا ہوئے۔ مگر موجودہ حکومت کا ہر ایک دن دیکھ لیں صورت حال ابتر سے ابتر ہی ہوتی گئی۔ سمجھ نہیں آتی کہ مافیا کون ہے۔سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسی ایمانداری ہے کہ کرپشن میں ہم اوپر جا رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسا عظیم لیڈر ہے جو غریب عوام کی اشیا ضروریات کی قیمتوں کو بھی کنٹرول نہیں کر پا رہا۔ سمجھ نہیں آرہی کہ دو ہزار کلومیٹر دور بیٹھے لوگوں کو تو نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ قابل اور دیانت دار لوگ نہیں مگر وزیراعظم عمران خان کو اپنے سے دو میٹر دور بیٹھے یہ لوگ نظر نہیں آرہے۔ موجودہ حکومت کو علامہ طاہرالقادری بھی آکر احتجاجوں کے ذریعے نہیں ڈراتے، ان کو 126 دن کے کسی سیاسی جماعت کے دھرنے کا سامنا بھی نہیں، انہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ بھی حاصل ہے۔ مگر پھر بھی صورتحال ان سب کیلییصورت دکھانے کے قابل نہیں رہتی جا رہی ہے۔یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی حکومت نہیں بلکہ تماشا گیری ہورہی ہے، ایمانداری اور دیانتداری کے نام پر پاکستان کو یوں ہی لوٹا جارہا ہے جیسے اسلام کے نام پر جعلی پیر اللہ ہو کی صدائیں لگاتے ہوئے مریدوں کو چونا لگا جاتے ہیں۔