جوبائیڈن کی مقبولیت میںکمی

0
108
مجیب ایس لودھی

افغانستان سے فوجی انخلا کی بائیڈن حکمت عملی امریکہ کے عوام کو بالکل پسند نہیں آئی ہے ،یہ نہیں کہ بائیڈن نے افغانستان سے فوج کو کیوں نکالابلکہ یہ تو ٹرمپ دور سے طے تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کو یقینی بنایا جائے گا اگر بائیڈن کی جگہ ٹرمپ بھی ہوتے تو وہ بھی افغانستان سے فوج کو نکالتے لیکن فوج کو نکالنے کی حکمت عملی واضح طور پر مختلف ہوتی ، امریکہ کے عوام کو بائیڈن حکومت کے طریقہ کار پر اعتراض ہے کہ جس طرح جلد بازی اور افغان قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر فوج کو اچانک سے نکالا گیا ،اس سے افغانستان میں خود امریکہ کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں ۔
عوام کی اکثریت نے افغانستان کے حوالے سے صدر بائیڈن کی حکمت عملی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ہے ، این بی سی کے پول کے مطابق صدر بائیڈن کی کارکردگی کے حامی افراد کی تعداد میں 8 فیصد کمی واقعہ ہوئی ہے ، سروے کے مطابق پہلی مرتبہ صدر بائیڈن کی ریٹنگ پچاس فیصد سے نیچے چلی گئی ہے ، افغانستان سے فوجی انخلا اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بائیڈن کی حکمت عملی سے امریکہ کے عوام مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ہیں جس کا اظہار پول کے دوران نمایاں طور پر سامنے آیا ہے ۔
عوام نے بائیڈن کی افغانستان کے متعلق حکمت عملی کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے ، یو ایس ملٹری کے مطابق 14 اگست سے اب تک افغانستان سے 25 ہزار سے زائد امریکی افواج کا انخلا مکمل کیا جا چکا ہے ، سروے میں شامل تجزیہ کاروں ڈیموکریٹس کے پولسٹر جیف جوکہ ہارٹ ریسرچ ایسو سی ایشن سے بھی وابستہ ہیں نے بتایا کہ افغانستان مسئلے کی بچائے ملک میں کرونا کے حوالے سے پالیسی نے بائیڈن کی کارکردگی پر زیادہ سوالیہ نشان اٹھایا ہے ،سروے کے دوران 74 فیصد امریکیوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہت برے طریقے سے کیا گیا ہے ، کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس میں مناسب وقت کا انتخاب بھی نہیں کیا گیا ۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران جوبائیڈن نے کہا کہ جس طرح ہماری فورسز نے کابل سے شہریوں اور سفارتی عملے کو نکالا ہے وہ تعریف کے قابل ہے ، انھوں نے بتایا کہ صرف ایک ہفتے کے دوران ہم نے کابل سے 30 ہزار سے زائد افراد کو بحفاظت امریکہ منتقل کیا ہے جوکہ بہترین اقدام ہے ، سیکرٹری آف اسٹیٹ بلنکن بھی صدر بائیڈن کے بیان کی حمایت کرتے دکھائی دیئے کہ القاعدہ میں اب امریکہ پر حملہ آور ہونے کی سقت نہیں ہے ،ٹی وی انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے گنے چنے اراکین موجود ہیں جوکہ اب دوبارہ امریکہ پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی سابق سفیر نکی ہیلی نے بھی 78 سالہ بائیڈن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے ان کو صدر کے عہدے کے لیے غیر موزوں امیدوار قرار دے دیا ہے ، ان کے مطابق بائیڈن افغانستان کے حوالے سے درست حکمت عملی اپنانے میں مکمل طورپر ناکام رہے ہیں۔
، سی بی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے ہیلی نے بتایا کہ ناقص حکمت عملی کی وجہ سے امریکی شہریوں کو خود بندوبست کر کے کابل ائیر پورٹ تک پہنچنا پڑا ،مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ بائیڈن کی ناقص حکمت عملی سے امریکہ کے شہریوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔دیگر صدور کی نسبت صدر بائیڈن میڈیا سے دور ہی رہتے ہیں جس کا اندازہ اس سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اب تک صرف دس کیمرہ انٹرویو دیئے ہیں ، صدر کی جانب سے میڈیا سے دور رہنے کی پالیسی ایک طرف ، نائب صدر کمیلا ہیرس بھی افغانستان کے مسئلے کے بعد سے بہت کم ہی میڈیا پر دکھائی دی ہیں بلکہ اس حوالے سے وہ بالکل بھی میڈیا پر نظر نہیں آ رہی ہیں اور نہ ہی انھوں نے اس حوالے سے کوئی بیان دیا ہے ۔
ہر اہم معاملے پر گفتگو کرتے دکھائی دیتی پریس سیکرٹری جین پالسکی بھی اس سارے معاملات سے پیچھے ہٹتے دکھائی دے رہی ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے نے بائیڈن حکومت کو ایسا متاثر کیا ہے کہ پریس سٹاف بھی اس سے خوفزدہ ہو گیا ہے ۔
نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جیک ولیون ، سیکرٹری آف ڈیفنس لوئیڈ آسٹن اور جنرل ملی نے کہا کہ اس وقت امریکہ اپنے شہریوں کو افغانستان میں مشکل میں نہیں ڈال سکتا ہے ، ہم اپنے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر افغانستان سے نکال رہے ہیں ، اس موقع پر ہمیں تنقید کرنے کی بجائے بائیڈن حکومت کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ وہ زیادہ محترک اور مضبوط ہو کر اس مسئلے سے نبرد آزما ہوں سکیں ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here