صدربائیڈین نے ہر چند افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ بے حد عجلت میں کیا ہے کہ وہ 31اگست تک افغانستان سے نکل جائیں گے ، میڈیا لمحہ لمحہ کی خبر دے رہا ہے ادھر طالبان جو بتدریج افغانستان پر اپنے قدم جما رہے ہیں نے بیان میں امریکہ کو ڈیڈ لائن پر عمل کرنے کی دھمکی دے دی ہے ، آج طالبان نے فوجی وردیوں کے ساتھ ڈیڈ لائن پر عمل کرنے کی دھمکی دے دی ہے، آج طالبان نے فوجی وردیوں کے ساتھ امریکہ کی چھوڑی ہوئی فوجی پک اپ میں شہر کابل کے چکر بھی لگائے ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی میز اور کرسی پر پھول سجا کر حکومت نہیں کی ہے ،امریکہ انخلاء میں تیزی دکھا رہا ہے۔ابھی تک اس کالم کے مکمل ہونے تک42ہزار افراد جن کا تعلق امریکن فوج سے کسی نہ کسی صورت میں رہا ہے۔(امریکن اور افغانی)افغانستان سے نکل چکے ہیں۔ایئرپورٹ سے باہر طالبان اور اندر امریکن فوجی تعینات ہیں قابل ذکر جو بات ہے وہ یہ کہ طالبان نے پہلے کی طرح بندوق چلانے کی ریہرسل نہیں کی ہے۔عام شہریوں کو طالبان کے اردگرد دیکھا جاسکتا ہے۔
طالبان کے ہی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ عوام ہمارے خوف سے نہیں بلکہ امریکہ میں ایک اچھی خوشحال زندگی کے لئے بھاگ رہے ہیں، ملک چھوڑ کر یہ بات بہت حد تک سو فیصد درست ہے کہ یورپین ممالک کو چھوڑ کر کون سا ملک ایسا ہے جہاں کا باشندہ امریکہ آنے کا خواب نہ دیکھ رہا ہو اور ہم پاکستانی جو یہاں سے بھی اچھے گھروں میں نوکر، ڈرائیور کی زندگی سے آراستہ ہیں۔انہوں نے بھی ملک سے باہر انتظام کرلیا ہے ہر دوسرے مالدار، سیاست داں کا بیٹا یا بیٹی لندن،دبئی، امریکہ میں عیش کر رہے ہیں۔یہ عیش اپنے ساتھ بہت افسردگی ، محنت اور بزنس میں ساتوں دن جان کھپانے کا ہے۔”لالچ برُی بلا ہے” کی کہاوت یہاں فٹ ہے کہ لوگوں کی راتیں اور دن اس طرح مکس اپ ہوگئے ہیں کہ کسی کی شام کسی کی صبح ہے اور دن کسی کی رات ہے۔چہرے پر تھکاوٹ ،میاں بیوی اگر کسی پیشے یا ریستوران یا فرنچائز سے تعلق رکھتے ہیں تو ان سے ملنے کا تصور نہ کریں وہ اگر ملیں گے تو اپنی شان شوکت دکھانے کے لئے ان کے پاس بچوں اور بیوی کے لئے یا شوہر کے لئے اتنا وقت نہیں ہے کہ دولت سے سکون حاصل کرسکیں۔بقول ہمارے مرحومCOUSINکے یہاں لوگوں سے مل کر یہ جائزہ پیش کیا”میں نے بہت کم فیملی کو کھانے کی میز پر جمع ہوتے دیکھا ہے اور میاں بیوی کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے بہن بھائی ساتھ رہ ہے ہوں”انکا یہHarsbبیان ہمیں یاد دلاتا رہتا ہے۔وقت بدل گیا ہے معاشرہ ہائی جیک ہوچکا ہے۔مذہب اور ایک دوسرے سے ملنے کا جذبہ بھی ختم ہے پاکستان میں اور یہاں بھی افراتفری کا عالم ہے مذہبی شرپسند بغیر کسی وجہ کے سوشل میڈیا پر ہر ماہ کچھ ایسی باتیں ڈالتے رہتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے منہ سے گالی نکلتی ہے کہ ہمارے خوابوں میں بھی نہیں کہ حضرت علی رحمتہ دوسرے خلفاء سے کم تر تھے لیکن بہت سے اہل تشیح، سیدھے سادے مسلمانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں دو فرقوں میں بھی کئی اور ٹوٹ پھوٹ ہیں دیو بندی،بریلوی، اہل حدیث، اہل سنت جیسے مسالک یہاں سنتے رہتے ہیں کیا ہم پیارے رسول کی بات کو اہم سمجھتے ہیں”کیا ہم ایک اُمت ہیں”جس کے تحت دنیا میں جہاں جہاں مسلمانوں پر(اہل تشیح یا سنی)ظلم یا زیادتی ہو تو سنجیدگی سے سوچیں اس کی مثال یہ ہے کہ اُدھر دنیا افغانستان میں یہ تماشا دیکھنے میں لگی ہے اور اسرائیل اپنے جنگی عزائم اور فلسطینیوں کی نسل کو ختم کرنے میں مصروف ہے وہ کئی دن سے غزہ کی پٹی پر رہے سہے ،بچے کچے بے گھر فلسطینیوں پر میزائل پھینک رہا ہے اور اقوام متحدہ بالکل خاموش ہے ویسے اقوام متحدہ کی اہمیت کئی دہائیوں پہلے ختم ہوگئی تھی امریکہ کے ہوتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جہاں بھی اسرائیل اور انڈیا کی زیادتیوں ، فلسطین اور کشمیر پر غیر قانونی ظالمانہ قبضہ کی بات آتی ہے تو امریکہ، برطانیہ، فرانس کے ساتھ مل کر ویٹو کر دیتا ہے۔
امریکہ خود سے فیصلے کرتا ہے ،سرد جنگ سے پہلے سے بھی زیادہCIAکے اہلکار خلفشاری کا باعث بن رہے ہیں جس کی ضرورت نہ تھیU.S.S.Rختم ہونے کے بعد یہ بات ایک امریکن نے جوCIAمیںKGBآپریشن کا انچارج تھا اورKGBکو اہم راز فراہم کرنے کے الزام میں پکڑا گیا اور اسے اور اسکی برازیلین بیوی کو عمر قید اور تیس سال کی سزا ہوئی اس کا نام ایلڈرچ ایمس ہے اور موصوف فیڈرل جیل انڈیانا میں بقیہ دن پورے کر رہے ہیں۔ورائٹی میگزین کو ایک طویل انٹرویو میں کولڈ وار ختم ہونے کے بعد کہا تھا”اب ہمیں اتنے زیادہ لوگوں کی ضرورت نہیں ہے”۔
اور پھر جب عراق پر قبضہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی کہ صدام حسین کے پاس ایسے مہلک ہتھیار ہیں جو تباہی مچا دینگے۔CIAکی ضرورت ہی کیا رہ گئی جب کہ جنرل پاویل اس وقت کہ سیکرٹری خارجہ امور جو صدر بش کی حکومت میں تھے نے اعتراف کیا کہ غلطی ہوئی ہے ہمیں یاد آیا کہ ہم نئے نئے امریکہ آئے تھے ایک درجن پنسلوں کا پیک لائے دیکھا یہ کہ ہر پنسل پر ربُر چڑھی ہوئی ہے مطلب یہ کہ پہلے سے اندیشہ ہے کہ لوگ غلط لکھ سکتے ہیں اور ربر کی ضرورت ہوگی درست کرنے کے لئے جب سے اب تک ٹنوں کے حساب سے ربر استعمال ہو رہا ہے۔ربر کی جگہ آپ ڈالرز کو لے لیں کہ بائیڈین صدر نے اعتراف کیا کہ ایک ٹریلین خرچ کرنے کے بعد ناکامی ہوئی ہے۔
ہم بیرونی پالیسی میں غلطیاں کرنے کے ماہر ہوچکے ہیں ایسے جیسے ایک فلم میں ہیرو جج سے کہتا ہے یہ کیا انصاف ہے جناب اعلیٰ تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ ہم پاکستانی تو کسی چیز کا اثر نہیں لیتے، مطالعہ نہ پہلے کرتے تھے اور اب تو پڑھنے لکھنے اور ایک دوسرے سے ملنے سے گئے۔سعدی شیرازی کا مطالعہ کرلیں انگریزی میں بھی کتابیں ہیں جو فارسی اور اردو میں لکھا ہے وہ انگریزی میں بھی ہے۔
اول ”افغان”،دوئم ”کمبو” سوئم……”کشمیری”خالی جگہ دانستہ چھوڑی ہے آگے بہت سخت الفاظ ہیں جو ایک شاعر(دانشمند)کو زیب نہیں دیتا لیکن یہ کہاوت ہم نے ستر سال پہلے سنی تھی۔ستر سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے انسان اور حالات، مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔آج نون لیگ کے سردار ایاز صادق نے میڈیا پر اچھی بات کہی”افغانستان میں امریکہ کو شکست ہوئی ہے”ہمارا بھی یہ ہی کہنا ہے یہ کوئی جنگ نہیں تھی ہر بڑی طاقت کا اپنااپنا انداز ہے اندر کی بات عام نہیں کی جاتی، ہوسکتا ہے برطانیہ اور روس اس ملک کو بنانے کی نیت سے گئے ہوں اور امریکہ کسی اور نیت سے ، غالب نے کیا خوب کہا تھا
”سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپاہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
غالب کا یہ شعر ہم امریکہ کی نذر کرتے ہیں دیکھیں اگلا محاذ کیا ہوگا؟