وزیر اعظم عمران خان 24فروری کو روس کا تاریخی دورہ کرینگے، وزیراعظم کا دورہ روس دو روز پر مشتمل ہو گا،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی،مشیر تجارت عبدالرزاق داود ،معاون خصوصی معید یوسف ہمراہ ہوں گے۔ پاکستان ریلوے، وزارت صنعت و پیداوار، وزارت توانائی سمیت مختلف شعبوں میں معاہدے ہوں گے۔وزیراعظم عمران خان روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی دعوت پر دورہ کریں گے، دورہ روس میں ولادیمیر پیوٹن دورہ پاکستان کی دعوت کا اعادہ کریں گے۔پاکستان دفاع،سلامتی،تجارت اور توانائی کے شعبے میں روس کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے۔کسی بھی پا کستانی وزیر اعظم کا روس کا یہ دورہ 23سال بعد ہو گا۔یہ خبر آپ نے یقینا اخبارات میں پڑھی ہوگی، پاکستان اور روس کے تعلقات ماضی میں امریکہ روس سرد جنگ کے سبب ایک ایسی صورتحال کا شکار ہوگئے، جس میں صرف ایک رسمی اور سطعی قسم کے تعلقات ہی باقی رہ گئے تھے۔مگر کیا وزیراعظم کا دورہ روس ماضی کی تلخیوں کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔یہ اتنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ ایک ایسا ملک جس کو پچاس سال پیچھے پہنچانے میں پاکستان کا انتہائی اہم کردار رہا ہو، اس کے ساتھ بیٹھ کر اس زخم کو بھول جانا روس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔خارجہ امور کے ایک سینئر افسر سے بات ہوئی تو انہوں نے اس معاملے پر کہا کہ روس پاکستان کے تعلقات میں اعتماد کی کمی ہمیشہ رہنے والا عنصر ہے، اس کی تاریخ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے اس دورہ امریکہ سے شروع ہوتی ہے جب انہوں نے اس دورہ کے لیے روس کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔میں نے سوال اُٹھایا کہ پاکستان کی جانب سے یہ قدم اٹھایا جانا خارجہ پالیسی میں کسی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ چند وجوہات یقینا ایسی گزشتہ چند سالوں میں پیدا ہوئی ہیں جس کے سبب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ موڑ آیا ہے، خصوصا امریکہ کی پاکستان سے دوری، صدر جوبائیڈن کا وزیر اعظم عمران سے خواہش کے باوجود رابطہ نہ کرنا، سعودی عرب کی پاکستان سے بے رخی وغیر تو شامل تھیں ہی مگر دوسری جانب چین کی طرف سے بھی پاکستان کو کچھ معاملات میں عدم تعاون کی پالیسی ممکنہ طور پر خارجہ پالیسی میں اس بڑے موڑ کی وجہ ہوسکتی ہیں۔میں نے آخری سوال کیا کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان یوٹرن لینے میں بھی بڑی شہرت کے حامل ہیں، کہیں روس کا دورہ یا خارجہ پالیسی میں تبدیلی کسی ایک کال یا ایک ارب ڈالر کی ضرب سے حکومتی عزائم تو تبدیل نہیں کرسکتے؟ جس پر وہ صاحب زور کا قہقہہ لگا کر کہنے لگے کہ مجھے ایک ضروری کام سے نکلنا ہے، انشا اللہ دوبارہ جلد بات ہوگی، مگر میں اتنا کہوں گا کہ گھر، گلی، محلے، شہر، صوبے، ملک اور دنیا میں عزت انہی کو ملتی ہے جن کی پالیسیاں اور زبان آئے روز تبدیل نہ ہوں کیونکہ خارجہ پالیسی کسی بھی قوم کی زبان ہوتی ہے۔
٭٭٭