ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی کی خدمات

0
215
مجیب ایس لودھی

دھوکہ دہی اور فراڈ کی دنیا میں دین کی شمع روشن کرنا ، مواقع ملنے کے باوجود ایمانداری کی راہ پر قائم رہنا بہت بڑا جہاد ہے، نیویارک کی چکاچوند اور مصروف ترین زندگی میں بھی خود کو دین کی راہ پر گامزن رکھنے والے ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ،میں ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی کو کم و بیش تین دہاہیوں سے زیادہ جانتا ہوں، ابھی جمعہ کے روز انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی مجھے بھی بلایا مگر میں ٹریفک میں پھنس گیا اور المہدی سینٹر حاضر نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کانفرنس المہدی سینٹر سے جڑی بلڈنگ خرید نے کے بعد بلائی تھی، میں انہیں اپنی اور دوست احباب کیطرف سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وہ میرے اخبار کے کالمسٹ ہیں۔ میں نے کبھی بھی انکے حق میں کالم نہیں لکھا۔ یہ میری زندگی کا پہلا کالم ہے جو میں انکے حق میں لکھ رہا ہوں۔ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اکتیس سالوں سے اس مرد مجاہد کو سچا اور پکا مسلمان، اتحاد کا داعی، دوسروں کی عزت کرنے والا، خوش اخلاق، ہنس مکھ اور شریف النفس انسان پایا ہے اگر کونی آئی لینڈ پر وہ مدبرانہ سوچ کے حامل نہ ہوتے تو مسلمان ایک دوسرے کے دست وگریباں ہوتے، انہوں نے توڑنے کی بجائے جوڑا ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھائی ہے،فرقوں اور قومیتوں میں فرق مٹائے، وحدت و اتحاد کے دیپ جلائے، نفرتوں کی دیواروں کو گرایا۔ محبتوں کے دیئے روشن کیے،مسلمان تو مسلمان غیر مسلموں میں بھی ایک نام کمایا، شہر کا مئیر ہو یا پولیس کمشنر انکا احترام کرتا ہے۔انکو ہم نے کبھی میلوں ٹھیلوں میں نہیں دیکھا تاہم جنازوں، فاتحہ خوانیوں میں کم غیر حاضر پایا ہے، ان کا جنازہ پڑھانے کا انداز منفرد ہے۔ انکی خطابت عروج پرہے۔ ان میں لسانی، علاقائی ، مذہبی تعصب نہیں دیکھا، لالچ نام کی کوئی شے نہیں پائی۔ کبھی کبھار نوک بھی ہوئی تو انکا بے حد معتدل بلکہ عفو و درگزر والا پایا ہے، زندوں، مردوں کی خدمت کے ریکارڈ توڑنے والا یہ طلسماتی شخص قابل رشک ہے۔ تعلیم کو عام کرانا، جمہ و جماعت ، مجلس و محفل، قرآن پڑھانا، دین سکھانا بڑوں کا احترام ، چھوٹوں پر شفقت اور ملک و قوم سے وفا اور محبت سکھانا انکی ترجیحات میں ہے، انکے ساتھ مکی مسجد میں کئی جنازے پڑھے۔ کئی فاتحہ خوانیوں میں ساتھ رہا،سادگی انکا شعار ہے تو خوش لباسوں میں انکا شمار ہے۔ وہ عربیوں والا لمبا کرتا جسے توپ کہتے ہیں پہنتے ہیں ،وہ کم شلوار قمیض یا پینٹ کوٹ میں نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ بولتے بھی گرج کر ہیں چلتے بھی سر اُٹھا کر ہیں مگر اعتدال اور تواضع کے ساتھ، اب آئیے اس پریس کانفرنس کی ویڈیو پر تھوڑی سی بحث کریں۔ پہلے تو میں یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس کر رہا ہوں کہ ایک اتنے آفاقی بڑے مفتی، امام صاحب ،علامہ، مولانا اور حضرت صاحب کو ہاتھ میں قرآن پکڑ کر حلف اُٹھاتے ہوئے تیسری چوتھی بار دیکھ رہا ہوں، یہ ہم سب کیلئے باعث شرم ہے۔ایک جب القرآن سکول کیلئے بخارا کے مالک کی بلڈنگ خرید رہے تھے ، دوسرا حج کے بارے جھوٹے الزامات سے برات اور تیسرا جمعہ کے روز یہ قسم کہ انہوں نے کبھی فنڈنہیں کھایا۔ میں سوال کرتا ہوں کہ فنڈ دینے والے اعتراض کر رہے ہیں یا نہ دینے والے ؟ دینے والوں کا تو اعتراض بنتا ہے نہ دینے والوں کو تو حق نہیں پہنچتا ہے۔ پھر فنڈ کھانے والے ایسے نہیں ہوتے انکی کوٹھیاں ، محل اور جائیدادیں ہوتی ہیں۔ انکا تو امریکہ میں شاید اپنا گھر بھی نہیں ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جائے کہ فنڈ آتا کتنا ہے ؟ مجھے سلامت نے بتایا تھا کہ 2001 میں لی گئی بلڈنگ کا قرضہ شاید 2017 میں اترا ہے جو شاید تین لاکھ تھا اتارنے میں16 سال لگ گئے،وہاں کیا ڈونیشن آتا ہوگا ؟ ویسے بھی ہم جانتے ہیں نیبر ہوڈ کے اکثر نمازی ورکنگ کلاس ہیں،یہ اس مرد میدان کی ہمت ہے کہ سینٹر بنا لیا، چلا لیا، ڈبل کر لیا،بہت بہت مبارک، میں اسلئے کالم لکھنے پر مجبور ہوا کہ وہ شخص مسلسل چیلنج کر رہا ہے کہ ایک سینٹ کا ثبوت لاؤ تو میدان میں مخالفین کیوں نہیں آتے؟ بلکہ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ سینٹر انکا مقروض ہے۔ یہ دنیا کی منفرد مسجد ہے جہاں کا پیش امام باقیوں سے زیادہ چندہ دیتا ہے، جھاڑو دیتا ہے جو بل سینٹر نہ دے سکے وہ دیتا ہے، چوکیدار اور اپنے نائب کی تنخواہ اپنے پاس سے دیتا ہے۔ انصاف کی بات کروں تو کبھی کسی بھی نیویارکر نے ان پر اعتراض نہیں کیا ،یہ باہر سے پتہ چلا ہے یہ کوئی ایک آدمی ہے جو فیک آئی ڈیز سے دھندہ کر رہا ہے۔ بقول حضر ت کے دو لوگ اور ہیں۔ شیعہ برادری سے کہونگا کہ وہ انکا بائی کاٹ کر دیں یا ہدایت کر دیں۔ اپنے ایک عظیم عالم کی کردار کشی پر خاموش نہ بیٹھیں۔ ایک شخص نے پوری سوشل میڈیا کی دنیا میں آپکو بدنام کر دیا ہے۔ خاص طور پر نیو یارک والوں کوڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے ایک ، دو یا تین افراد کیلئے کبھی قسم نہ کھائیں۔ جسکا حد اربعہ فیک آئی ڈی ہے بقول ایک لیڈر کے جو کسی امام بارگا ہ ! مجلس یا جلوس میں نظر نہیں آتا ہے اسکی کیا حیثیت ہے ؟ پبلک اپیل کے بغیر چودہ لاکھ کی کلوزنگ کرا لینا خود کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ ویڈیو میں ڈاکٹر صاحب بلڈنگ کے مقابل پر اس سے قبل کسی بھی بینک کے قرض کی نفی کر رہے ہیں تو یہ بات بھی درست ہے کہ اگر قرضہ ہوتا تو اسپر اب کیسے ڈاؤن پیمنٹ کیلئے قرضہ مل گیا ہے ؟ جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ؟ معذرت کے ساتھ اہل سنت کی امریکہ میں ہزاروں اور نیویارک میں سینکڑوں مساجد ہیں کسی امام صاحب کے ساتھ اختلاف کے باوجود بھی انہیں ماں، بہن ،بیٹی کی گالی نہیں دی جاتی تویہ کونسی شرافت ہے ؟ کہ اپنے عالم کو یہ فحش گالیاں لکھ رہے ہیں، فیس بک پر ڈالنے والے خدا اور قوم کو کیا جواب دینگے ؟
یہ سوال ہے ثبوت کے ساتھ جواب دیں، فیک آئی ڈیز سے نہیں، جیسے ڈاکٹر صاحب نے سب کو لاجواب کردیا ہے۔یہ بھی افسوس ناک ہے ،ڈاکٹر اور آیت اللہ کی ڈگریاں وہ چیک کرنے چلے ہیں جو پرائمری کی صلاحیت نہیں رکھتے، بقول علامہ۔ کردارکش ہوش کے ناخن لیں اور اکا دُکا سہولت کار بھی احتیاط برتیں اور حضرت سے کہتا ہوں،علامہ آپ کام کرتے جائیں ،ہم سب سنی شیعہ آپکے ساتھ ہیں، حاسدوں کا منہ کالا ہوگا۔
ہمت مرداں مدد خدا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here