سویڈن میںقرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ اس لحاظ سے باعث تعجب ہے کہ دو ہفتے قبل اسی نوع کے واقعہ پر سویڈن حکومت نے افسوس کا اظہار کیا اور اعتراف کیا تھا کہ اس واقعہ نے اس کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سویڈن میں قرآن پاک کی دوبارہ بے حرمتی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مسلم ممالک اس شیطانیت کے تدارک کی حکمت عملی ترتیب دیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عالم اسلام اور مسیحی دنیا کومل کر اس سازش کو روکنا ہو گا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ شیطان کے پیروکار اس مقدس کتاب کی بے حرمتی کر رہے ہیں جس نے انسانوں کو عزت ،حقوق اور رہنمائی فراہم کی ۔ سو یڈن حکومت اپنے وضاحتی بیان میں خود کو بے حرمتی کے واقعہ سے لا تعلق بتاتی رہی ہے۔اسی نوع کا واقعہ دوبارہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ سویڈن نے جس درجہ افسوس کا اظہار کیا اس طرح ایسے واقعات کو روکنے کے لئے اقدامات نہیں کئے۔شر پسند حلقے اپنے خلاف کارروائی نہ ہونے سے شہہ پا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کا وہ حصہ جہاں ابھی تک آزادی اظہار کا مادر پدر آزاد تصور موجود ہے وہاں مذہب کے خلاف نفرت کا مظاہرہ فروغ پا رہا ہے۔سویڈن، ناروے، فرانس اورڈنمارک خاص طور پر اس نوع کے مظاہروں کی آماجگاہ بن رہے ہیں۔خاکوں کی اشاعت اور قرآن کی بیحرمتی کے واقعات پر مسلم دنیا کے احتجاج کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔یہ امر سوچنے کی ترغیب دیتا ہے کہ ستاون مسلم ممالک آخر اس قدر کمزور اور بے بس کیوں ہیں کہ چند لاکھ آبادی والے مغربی ممالک ان سے تجارت، سیاست یا سفارتی رشتوں کے خراب ہونے کی پرواہ کئے بنا اپنی روش پر برقرار ہیں۔اب ان واقعات میں سرکاری سرپرستی کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔مسلم معاشروں کا المیہ دوہرا نظر آتا ہے کہ جب وہاں کے لوگ اپنی حکومت پر بے حرمتی کرنے والے ملک کا بائیکاٹ کرنے کے لئے دباو ڈالتے ہیں تو ان کی حکومتیں اپنی کمزوریوںکا اعتراف کرنے لگتی ہیں۔پاکستان میں فرانس کے واقعات پر عوام کا رد عمل اور حکومت کی بے بسی اسی تناظر میں دیکھی گئی۔اس بے بسی کا سبب جاننے کی ضرورت ہے ۔ مسلم ریاستوں کے نظام حکومت اور حکمرانوں کے انتخاب کا عمل عوام کی بجائے بین الاقوامی طاقتوں کا مرہون منت ہوچکا ہے۔ریاست کو جدید ،موثر اور عوام کی بہبود کا نمونہ بنانے کی بجائے بالادست طبقات اسے اپنے مفادات کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ان حکمران طبقات کے کاروبار، املاک اور اولاد ان ہی مغربی ملکوں میں ہوتی ہے۔یہ کبھی ایسا موقف اختیار نہیں کرتے جو ان کے ذاتی مفادات کو قربان کر دے۔حکمران طبقات کی ذاتی اور خاندانی طمع انہیں وہ موقف اختیار کرنے سے روکتی ہے جو مغربی دنیا کو برا محسوس ہو۔اس معاملے کا ایک پہلو سیاست سے منسلک ہے۔ پاکستان جیسے مسلم ممالک میں حکمران طبقات قومی خزانے کی لوٹ مار، منی لانڈرنگ،رشوت اور اقربا پروری کو گڈ گورننس قرار دیتے آئے ہیں۔عوامی سطح پر ان کی کارکردگی پر بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے ۔عوام کی اس بیزاری سے یہ طبقات آگاہ ہیںاس لئے وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ رابطہ کاری میں مشغول رہتے ہیں۔کئی بار یہ رابطے ان کو اقتدار میں واپس لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ او آئی سی کی سطح پر شعائر اسلام کی بے حرمتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ سابق حکومت میں پاکستان کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر اسلاموفوبیا کے خلاف موقف اختیار کیا، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گئے،جنرل اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے مغربی دنیا سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی مقدس شخصیات و شعائر کی توہین کر کے دل آزاری نہ کرے ۔ان کے موقف کی ترکی ،ملائشیا، انڈونیشیا، عرب ممالک اور افریقی مسلم ریاستوں نے بھرپور حمایت کی۔اس حمایت کا نتیجہ تھا کہ اقوام متحدہ نے پندرہ مارچ کو ہر سال انسداد اسلامو فوبیا کا دن قرار دیدیا۔ مغربی معاشرے کئی صدیوں سے اسلام کو اپنا سیاسی حریف سمجھتے آرہے ہیں۔صلیبی جنگوں کے وقت سے ان کی تاریخ مسلمانوں کو دشمن بتاتی ہے۔ اسلامو فوبیا کے عالمی دن کے تقاضے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو مد نظر رکھیں تو مغربی ملکوں میں شعائر اسلام کی بے حرمتی کے واقعات سنگیں جرائم کے زمرے میں آتے ہیں جن کے مسلسل ارتکاب سے عالمی امن کو خطرات سے دوچار کیا جارہا ہے۔مسلم ریاستوں کو سفارتی اور سیاسی سطح پر مغربی ریاستوں کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی یا اپنے ہاں اظہار رائے کی آزادی کے تصور میں سے دوسرے مذاہب کی توہین کا پہلو خارج نہ کیا تو بقائے باہمی کا رشتہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر اقوام متحدہ، سعودی عرب، او آئی سی اور امریکہ نے مذمت کی ہے۔ روس پہلے ہی اس نوع کے واقعات کو اپنے ہاں روکنے کے لئے سخت سزا کا اعلان کر چکا ہے۔پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کے حکمران طبقات کو مغرب سے جڑے اپنے مفادات چھوڑنے ہوں گے،خاص طور پر ان ملکوں سے تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جہاں تواتر کے ساتھ توہین کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔سویڈن، ناروے، ڈنمارک،فرانس وغیرہ کو باقی مغربی ملکوں سے الگ کر کے مسلم ممالک بہتر حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں۔
٭٭٭