بدقسمت تارکین وطن !!!

0
63
رمضان رانا
رمضان رانا

اگرچہ ترک وطن ہونا نہایت تکلیف دہ قدم ہے جو کسی کالے پانیوں کی سزا سے کم نہیں ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا بیوی بچے چھوڑ کر ترک وطن پر مجبور ہوتا ہے جن کو نہیں معلوم کہ ان کی منزل کہاں ہے۔ بسا اوقات ترک وطنوں کی پانی کی کشتیاں ڈبوجاتی ہیں۔ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں مارے جاتے ہیں۔ جن کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں جو انہوں نے دیکھے ہوتے ہیں ترک وطن کی دنیا میں امریکہ واحد ملک ہے جو تارکین سے آباد ہوا ہے جن کے کلچر،زبان، نسل قوم اور تہذیب وتمدن مختلف ہیں جو آج اپنے اتحاد سے دنیا کی واحد عالمی طاقت بنا ہوا ہے جن کے بارے میں امریکی صدر جان ایف کینڈی اپنی کتاب میں لکھ کر چلا گیا کہ امریکہ دی نیشن آف امیگرینٹس ہے یہاں دنیا بھر کے ترک وطن آباد میں جو ماضی سے حال تک معاشی بدحالی سیاسی انتقام اور مذہبی تشدد کی وجہ سے آباد ہوئے جن کے خلاف آج سفید فام امیگرنٹس کو صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نسل پرستی پر اُبھار رہا ہے تاکہ رنگداروں کو امریکہ آنے سے روکا جائے مگر جن کے سامنے امریکی آئین آڑے آرہا ہے کہ جس میں رنگ، نسل، قومیت، مذہب کے نام پر تعصب اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ تاہم پچھلے دنوں سکندر اعظم کے ملک یونان کے ساحل کے قریب ایک کشتی ڈھوب جانے سے سینکڑوں تارکین وطن مارے گئے جس کو دیکھ اور سن کر انسانیت کانپ گئی ہے کہ کس طرح یونانی ہیلی کاپٹر اس بدقسمت تارکین وطنو کی کشتی کو ڈھوبتے دیکھتے رہے جو ڈھوبنے والوں کو بچانے کی بجائے تماشہ موت دیکھتے رہے جس میں چار سو کے قریب بدقسمت پاکستانی تارکین وطن بھی تھے جو لاکھوں روپے انسانی اسمگلروں کو دے کر نمبرون ملک جارہے تھے جن کو معلوم نہ تھا کہ ان کا بہتری کا خواب ادھورہ رہ جائے گا جن کے والدین بہن بھائی یا اولادیں راستہ تکتی رہی ہونگی کہ کب ہمارا پیارا کسی خوشحال ملک میں جائے گا اور ایک وہ پیسے بھیجے گا تاکہ وہ بھی اچھی زندگی بسر کر پائیں گے اگر یہ بدقسمت تارکین وطن پاکستان کے باقی مالدار ،کرپٹ اور راشی جاگیردار اور رسہ گیر ہوتے تو وہ سیروتفریح کے لئے ہوائی جہازوں پر عیش وعشرت کے لئے جاتے جن کو تمام یورپین ممالک ہی ویزے دیتے نظر آئے جن کو کوئی حادثہ پیش نہ آتا۔ بہرکیف یونان کے قریب کشتی ڈوبنے کا تماشہ دیکھنے والے یونانی ہیلی کاپٹروں کے لوگ وہ ہیں جن کا باپ دادا سکندراعظم دنیا ختم کرنے نکلا تھا جن کا آخری پڑائو دریائے اٹک تھا جو راجہ بورس کا علاقہ تھا یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی قوموں کے یونانی، روٹی دنیا کو لوٹنے نکلتے تھے جن کے بعد برطانوی فرانسیسی، ولندیزی، پرتگال، ہسپانوی یورپین قومیں تھیں جنہوں نے دنیا بھر کو اپنے نو آبادیاتی نظام میں غلام بنا رکھا تھا جن کی لوٹ مار سے لندن، پیرس اور بڑے بڑے عیاشی کے اڈے آباد ہوئے تھے جو آج اپنے ماضی کے غلاموں کی اولادوں کے تارکین کو اپنے ملکوں میں روکنے کے لئے کشتیاں ڈوبنے کی منظر کشی میں لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ یورپین قوموں نے کل تک پوری دنیا میں لوٹ مار مچا رکھی تھی جس کی دولت پر وہ آج عیش وعشرت کر رہے ہیںبہرحال ترک وطن ایک بہت بڑا مشکل قدم ہوتا ہے جو انسان لت مجبوری اپناتا ہے چاہے وہ حضور پاک کے دور کی دو ہجرتیں ہوں۔ یا1947ء کی ہجرت ہو انسان بے آباد ہوجاتا ہے اگر انسان کو اپنی اپنی ریاستوں میں سیاسی، معاشی اور مذہبی انصاف ملے تو کوئی بھی شخص ترک وطن پر تیار نہ ہوگا جس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے تمام ممالک میں انصاف قائم کرنا ہوگا۔ جس کے لئے مساوات کا نظام قائم ہونا خاص طور پر پاکستان میں نامساوی وسائل کا تقسیم کا خاتمہ ہو۔ ہر شہری کو برابر کے حقوق میسر ہوں۔ ملک کا فرسودہ اور استحصالی نظام جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، رسیہ گیری کا خاتمہ ہونا کہ پاکستان کے شہری دنیا بھر میں رسوا ہونے سے بچ جائیں جو اب لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک جارہے ہیں باقی نہ ترک وطن کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here