امام حسین علیہ السلام کی سیرت کے چند پہلو!!!

0
601
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی پاک وپاکیزہ آغوش میں اولین نورالٰہی یا افق امامت کے دوسرے مہتاب درخشندہ امام حسن مجتبیٰ کے نمودار ہوتے ہی پیغمبر اسلامۖ کے گھر کا گوشہ گوشہ ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کا ذرہ ذرہ بھی پروردگار عالم کے نور کی عظمتوں سے منور نظر آنے لگا۔صرف یہی نہیں بلکہ تقویٰ وپروہیز گاری، عبادت وبندگی اور فضلیت وبرکت سے مالا مال رمضان المبارک کے مہینے کی پندرہ تاریخ کو طلوع ہونے والے بدرکامل نے عشق خدا اور رسولۖ سے سرشار صاحبان ایمان کے لئے حسن عمل کے ایک نئے باب کا اضافہ کردیا،امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے جناب رسولۖ خدا، حضرت علی اور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عظیم آغوش میں تربیت پائی، آپ اخلاق حسنہ کا بہترین نمونہ عمل تھے۔ امام حسن کا اخلاق:۔یوں تو امام حسن کی حیات طیبہ کا ہر پہلو تعمیری صفات اور درس آموز صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے۔مگر آپ کی زندگی کا سماجی اور اخلاقی پہلو غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، جو دوسخائوو عطائ، آپ کے اخلاق کا اہم ترین جز تھا، ایک دفعہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے آپ سے مالی امداد کا مطالبہ کیا، تو آپ نے پانچ ہزار درہم اور پانچ سو دینار عنایت فرمائے اور اس سے کہا:۔ جائو مزدور لائو اور یہ سارا مال اٹھا کر لے جائو، وہ شخص مزدور لے کر آیا تو امام حسن نے اپنی سبز عبابھی اس شخص کے حوالے کردی اور اسے فرمایا کہ اس عباکی قیمت سے مزدور کی مزدوری ادا کر دینا۔ ایک مرتبہ آپ سے کچھ لوگوں نے پوچھا اے فرزند رسولۖ آپ کبھی کسی سائل کو مایوس نہیں کرتے اس کی وجہ کیا ہے؟ تو امام حسن نے جواب میں فرمایا:۔بارگاہ خدا میں میری حیثیت بھی ایک سائل جیسی ہے، اور میں یہ چاہتا ہوں کہ خداوند عالم مجھے محروم ومایوس نہ فرمائے، اسی لئے مجھے شرم آتی ہے کہ میں اپنے لئے تو ایسی امید رکھوں اور میں دوسرے سائلوں کو ناامید کروں۔اس لئے اس سخاوت کی وجہ سے آپ کو”کریم اہل بیت” کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ معافی واحسان:۔اگر کسی آدمی سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو امام حسن اسے فوراً معاف کردیتے تھے، اگر کوئی شخص آپ سے بداخلاقی کرتا تو آپ اس کے گناہ کو احسان اور نیکی میں بدل دیتے، روایات میں ہے کہ آپ کے گھر میں ایک خوبصورت گوسفند تھی، آپ اسے بے پناہ چاہتے تھے ایک دن آپ نے دیکھا کہ اس گوسفند کا ایک پائوں ٹوٹا ہوا ہے، توآپ نے اپنے ایک غلام سے پوچھا کہ اس گوسفند کا پائوں کس نے توڑا ہے تو اس غلام نے دست ادب باندھ کر عرض کی مولا آپ کو رنجیدہ خاطر کرنے والا یہ غلام ہے۔امام حسن نے مسکراتے ہوئے اس غلام سے کہا، میں اس کے بدلے میں تجھے خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں، اور تجھ پر مزید احسان کرنے کا خواہاں ہوں، پس جا میں نے تجھے اپنی غلامی کی زنجیر سے تجھے آزاد کردیا ہے،۔ تواضع وانکساری:۔نادار،مفلس، اور محروم طبقے کے لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرنا اور ان کے سامنے فروتنی وانکساری سے کام لینا امام حسن کے اخلاقی صفات کا اہم جز تھا۔منقول ہے کہ ایک دن امام حسن نے دیکھا کہ غریب اور پسماندہ لوگوں کی ایک جماعت سڑک سے کچھ دور کھانا کھانے میں مصروف ہے، جب ان فقیروں نے امام حسن کو دیکھا تو آپ کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی اور امام حسن نے ان فقیروں کی خواہش کا احترام کیا اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مغرور اور متکبر افراد سے ہرگز محبت نہیں فرماتا، اس کے بعد امام حسن نے ان فقیروں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور جب وہ آپ کے دولت کدہ پر تشریف لے آئے تو آپ نے انہیں کھانے پینے کا سامان اور کپڑے عطا فرمائے۔(جاری ہے)
خوف خدا:۔امام حسن کی عبادت کا معیار وخلوص اس درجہ تھا، کہ لوگوں نے ہمیشہ آپ کو عبادت خدا میں مشغول دیکھا منقول ہے کہ وضو کرتے وقت آپ کی حالت دگرگوں ہوجاتی اور آپ کے چہرہ مبارک سے غیر معمولی خوف جلکھنے لگا، پھر آپ پر لرزہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، چنانچہ لوگوں نے جب امام حسن سے اس خوف کا سبب معلوم کیا تو آپ نے فرمایا۔جو شخص رب العالمین کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہے اس کے چہرے کا رنگ تبدیل اور اس کے جسم میں رعشہ ولرزہ پیدا ہونا لازمی امر ہے۔اسی طرح حالت نماز میں بھی آپ کے چہرے پر جہاں خشوع وخضوع کے آثار دکھائی دیتے وہاں خوف خدا کی وجہ سے آپ کے جسم کے ہر جوڑ میں تھرتھرہٹ پیدا ہوجاتی تھی۔
صبروبربادباری:۔مصائب ومشکلات اور پریشانیوں کے مقابلہ میں صبروبربادی سے کام لینا بھی امام حسن کے اخلاقی وکمالات کا ایک اہم حصہ تھا، ایک دفعہ اہل شام میں سے ایک شخص نے آپ کو بہت برا بھلا کہا مگر آپ نے اس شخص کی لعنت وملامت پر اپنی خاموشی برقرار رکھی، اور صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے اس شخص کو کچھ بھی نہ کہا، تھوڑی دیر بعد جب اس شخص نے آپ کو برا بھلا کہنا بند کیا تو آپ نے آپے بڑھ کر اس شخص کو سلام کیا اور فرمایا۔۔اے شیخ!ایسے معلوم ہوتا ہے کہ تم اس شہر میں مسافر آئے ہوئے ہو، اس لئے اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو یا کوئی حاجت ہو تو بلاتاخیر بیان کردو میں اسے فوراً پورا کردیتا ہوں، تیز بہتر ہوگا کہ تم اس شہر میں جتنے دن بھی رہو میرے گھر میں مہمان بن کررہو۔جب اس مرد شامی نے امام حسن کے ان کلمات کو سنا تو اس پر گریہ طارق ہوگیا، اور بے ساختہ اس کی زبان سے یہ جملہ نکل پڑا کہ(عربی لفظ ہیں)یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے زمین میں خلیفہ ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ رسالت وخلافت کو کہاں قرار دے۔
عبادت خدا:۔امام حسن کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ آپ ہر شب سورہ کہف کی تلاوت فرماتے اور فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی ذکر خدا میں مشغول رہتے، جب تک سورج طلوع نہ ہوجاتا، آپ ذکر الٰہی کے علاوہ کسی سے کوئی کلام نہیں کرتے تھے۔آپ انتہائی شوق وسکون کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے، تلاوت کے دوران جب آپ ایسی آیت مبارکہ تک پہنچتے جس میں مئومنین سے خطاب کیا گیا ہے۔تو آپ ارشاد فرماتے، لبیک اللھمہ لبیک۔۔۔مسجد کے دروازے کے قریب پہنچ کر آپ اپنا سر آسمان کی طرف بلند کرکے یہ دعا کرتے،۔”بارالٰہا!تیرا مہمان تیرے دروازے پر کھڑا ہے اے نیکو کار لوگوں کے پروردگار! تیرا گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں کھڑا ہے پس اے رب کریم تیرے کام کا تقاضہ یہی ہے کہ میرے برے اور ناپسندیدہ کاموں کو نظر انداز فرما دے۔
امام حسن کے زہدوتقویٰ کا یہ عالم تھا کہ آپ دنیا کی طرف کبھی راغب نہ ہوئے،اور دنیا کی رعنائیوں سے آپ کو ہرگز کوئی دلچسپی نہ تھی چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے،۔”خشک روٹی کے ٹکڑے سے میری بھوک مٹ جاتی ہے، تھوڑے سے پانی سے میں اپنی پیاس بجھا لیتا ہوں ایسے کم قیمت کپڑے سے میں اپنا جسم چھپاتا ہوں کہ زندہ رہوں تو وہ میرا لباس رہے اور مر جائوں تو میرا کفن بن جائے۔
امام حسن کی سیاسی تحریک:۔آپ نے کفر والحاد اور الٰہی قیادت پر غاصبانہ تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد فرمائی تاکہ حضرت ابراہیم کی طرح وہ اللہ کے دین کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔آپ نے تاریک اور آلودہ ماحول میں اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے خلاف جو روش اختیار کی وہ انتہائی مئوثر اور مناسب ثابت ہوئی، آپ نے اپنے علم اخلاق اور اپنی مثالی بردباری کے ذریعہ الٰہی راستے یعنی رہ اسلام کی مخالفت کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ فرمایا اس طرح آپ اسلام کی حیات کی ضمانت بن گئی، کیونکہ امام حسن نے اپنے محاذ ضلح سے دشمن کو کھلی ہوئی شکست سے دوچار کردیا،نیز ان خطرات کو بھی ختم کردیا جو اسلام کی بنیادوں کو نیست ونابود کرنے والے تھے۔
امام حسن کی شہادت:۔28صفر کو یوم شہادت امام حسن مجتبیٰ ہے۔حاکم شام نے آپ کو زہر ہلاہل دلوا کر شہید کروایا۔جبکہ کریم اہل بیت کا جنازہ نانا کے جوار میں تدفین کے لئے لے جایا گیا تو حاسدوں نے نہ فقط جنازہ دفن نہ ہونے دیا بلکہ اٹھارہ تیر برسائے۔امام حسین اور آپ کے دیگر بھائیوں، رشتہ داروں نے جسم اطہر کو جنت البقیع میں دفن کیا۔جہاں آل سعود نے آپ کے روضے کو مسمار کردیا تھا۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here