خبردار!کوئی شہری سی آئی اے سے محفوظ نہیں(انسانی حقوق کی تنظیمیں پھٹ پڑیں)

0
149

واشنگٹن (پاکستا ن نیوز) خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے عام امریکیوں کی جاسوسی کے لیے پروگرامز میں تیزی، بغیر اطلاع ڈیجیٹل ڈیٹا اکٹھا کیے جانے لگا ، انسانی حقوق کی تنظیموں نے کانگریس سے اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کر دیا، سی آئی اے کی جانب سے جاسوسی میں تیزی کی رپورٹ نائن الیون حملوں کے بعد قائم کی گئی واچ ڈاگ تنظیم پرائیویسی اینڈ سول لائبرٹیز اوورسائٹ بورڈ(پی سی ایل او بی ) کی جانب سے جاری کی گئی ہے ، انسانی حقوق کے تجزیہ کار ”فارن انٹیلی جنس سرویلینس ایکٹ (ایف آئی ایس اے) کے باوجود بڑے پیمانے پر شہریوں کی جاسوسی پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ماہرین کے مطابق ملک میں جاسوسی سرگرمیاں بالکل 2013 کی پوزیشن میں چلی گئی ہیں جب ایڈورڈ سنوڈن نے بڑے جاسوسی پروگرام سے پردہ اٹھایا تھا، لائبرٹی اینڈ نیشنل سیکیورٹی پروگرام کی نائب ڈائریکٹر ایلزبتھ نے بتایا کہ بغیر ہمارے علم میں لائے ہمارا ڈیٹا چوری کیا جا رہا ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ڈیٹا صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کو اس پررسائی دی جا رہی ہے ،ایگزیکٹو آرڈر12333 کے تحت حکومت خفیہ ایجنسیوں کو عام شہریوں کا ڈیٹا چوری کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی ہے ، سینیٹر ران وائیڈن اور سینیٹر مارٹن ہینرچ بھی اس جاسوسی پروگرام سے متعلق پی سی ایل او بی سٹاف کو خط لکھ چکے ہیں، جبکہ جاسوسی پروگرام سے متعلق دیگر رپورٹس مارچ 2021 میں سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی میں پیش کی گئی تھیں۔سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈنگٹن نے دی ہل کو بتایامجھے یہ یقین کرنا واقعی مشکل لگتا ہے کہ اس ملک میں لفظی طور پر دسیوں یا لاکھوں لوگ ہیں جو مالی لین دین میں مصروف ہیں جو ISIS کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ سی آئی اے نے پروگرام کے ایک حصے کے طور پر اس سے کہیں زیادہ لوگوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں جو سیکورٹی کے خطرے سے متعلق ایجنسی کو جواب دے رہی تھی۔ اس کے بارے میں فکر مند رہیں،جب امریکیوں کے ڈیٹا کو دوسری مختلف ایجنسیوں کے گرد گھیر لیا جاتا ہے، تو ان کے واقعی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔سینیٹر رون وائیڈن اور مارٹن ہینرک کا الزام ہے کہ سی آئی اے نے ایک نئے پروگرام کے ذریعے بغیر کسی وارنٹ کے بغیر شہریوں کی نگرانی شروع کر دی ہے جبکہ ڈیٹا کو اکٹھا کیا جا رہا ہے۔انٹیلی جنس حکام کو لکھے گئے خط میں ان دونوں ڈیموکریٹس نے اس پروگرام کی تفصیلات ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔امریکہ میں حکومتی طور پر ڈیٹا اکٹھا کرنا بہت تنازعات کا شکار رہا ہے۔سرکاری طور پر سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کو دوسرے ممالک میں جاسوسی کی اجازت ہے اور سی آئی اے کے 1947 کے چارٹر کے مطابق اندرونِ ملک جاسوسی ممنوع ہے لیکن 2013 میں ایڈورڈ سنوڈن امریکی حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر نگرانی کے پروگرام کی معلومات منظر عام پر لائے تھے۔امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔سنوڈن لیکس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کے تجزیے سے پتا چلا کہ جن لوگوں کی نگرانی کی جا رہی تھی ان میں سے تقریباً 90 فیصد ‘عام امریکی شہری’ تھے جو ‘ایک ایسے جال میں پھنس گئے جو نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے کسی اور کے لیے ڈالا تھا۔اس سے پہلے تک اعلیٰ عہدیدار اس سے انکار کرتے آئے تھے حتیٰ کہ انھوں نے کانگریس کے سامنے حلف اٹھا کر بھی جھوٹ بولا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔سی آئی اے نے ایک پروگرام کے بارے میں ایسے دستاویزات جاری کیے جنھیں پہلے خفیہ رکھا گیا تھا لیکن انھوں نے کئی دوسری دستاویزات کو یہ کہتے ہوئے منظرِ عام پر لانے سے انکار کر دیا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ ایجنسی کے ‘حساس طریقہ کار اور آپریشنل ذرائع’ کی حفاظت کر رہے ہیںلیکن اوریگون سے تعلق رکھنے والے وائیڈن اور نیو میکسیکو کے ہینرک کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات منظرِ عام پر لانے سے انکار کر کے ایجنسی ‘جمہوریت میں شہریوں کو حاصل حقوق کو نقصان پہنچا رہی ہے اور یہ اقدام انٹیلی جنس کمیونٹی کی طویل مدتی ساکھ کے لیے خطرناک ہے۔امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کا کہنا ہے کہ ‘ان رپورٹس سے اس بارے میں سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ سی آئی اے ہمارے بارے میں کون کونسی معلومات کو بڑے پیمانے پر اکٹھا کر رہی ہے اور ایجنسی ان معلومات کو امریکیوں کی جاسوسی کے لیے کس کس طرح استعمال کرتی ہے۔سی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ کسی بھی قانونی طریقے سے معلومات جمع کرنے کے دوران، سی آئی اے غیر ارادی طور پر ان امریکیوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتی ہے جو غیر ملکی شہریوں سے رابطے میں ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ جب سی آئی اے امریکیوں کے بارے میں معلومات اکھٹا کرتی ہے تو وہ ضابطوں کے مطابق اس معلومات کی حفاظت کرتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ ضابطے ڈیٹا کے محدود استعمال کو یقینی بناتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here