اسلام آباد (پاکستان نیوز) عمران خان کی ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد آج شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت بھی اختتام کو پہنچ گئی ہے ، دونوں کے دور حکومت میں جہاں کچھ امور میں کامیابی ملی تو کچھ میں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کردی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری آج صدر مملکت کو بھییجی تھی جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کردیے۔صدر مملکت نے قومی اسمبلی وزیر اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 58 ایک کے تحت کی تحلیل کی۔آئین کے آرٹیکل 58 کے مطابق اگر صدر وزیر اعظم کی سفارش کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی۔وزیر اعظم نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں صدر مملکت سے عبوری حکومت کی تشکیل کی درخواست بھی کی ہے۔6 اگست کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسمبلیاں اپنی مقررہ مدت سے 3 روز قبل 9 اگست کو (آج) تحلیل کر دی جائیں گی، جس کے بعد انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں گے۔اسمبلی تحلیل کے بعد اب وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کریں گے اور آئندہ تین روز میں وہ دونوں اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو معاملہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا جو کہ 3 دن کے اندر عبوری وزیر اعظم کے لیے کسی نام کو حتمی شکل دے گی تاہم، اگر کمیٹی مقررہ مدت میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو نامزد امیدواروں کے نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیے جاتے ہیں، اس کے بعد کمیشن کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کے لیے دو دن کا وقت ہوتا ہے۔اس سے قبل آج قومی اسمبلی میں اپنے الوداعی خطاب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آج رات ایوان کی اجازت سے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری صدر کو بھجوا دوں گا۔بیان میں کہا گیا کہ سمری میں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت عبوری حکومت کے قیام کی درخواست کی گئی ہے کہ سمری کی منظوری اور نگراں حکومت کی تشکیل کے بعد وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔موجودہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی تھی تاہم مقررہ وقت سے قبل اسمبلی تحلیل کیے جانے کے سبب اب الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت آئندہ 90 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا ہو گا اگر اسمبلی اپنی مدت کر لیتی تو الیکشن کمیشن کو 60 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا پڑتا۔اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224۔اے کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں کو نگران حکومت کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور کابینہ کے تمام ارکان کا سبکدوش ہونے والی حکومت کے 16 ماہ کے دور میں پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔واضح رہے کہ 2018 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آئی تھی اور عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔تاہم پونے چار سال پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سمیت اپوزیشن اتحاد کی کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت اختتام کو پہنچی تھی اور وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار شہباز شریف نے یہ منصب سنبھالا اور وہ تقریباً سوا سال اس منصب پر فائض رہے۔توقع ہے کہ وزیراعظم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے ملاقات کریں گے جس میں عبوری وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔