لتا منگیشکر چلی گئیں کسی نے لکھا اللہ مغفرت کرے، بہت سوں نے اس بات کا برُا منایا، سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے معنی کیا ہیں آپ گوگل کرسکتے ہیں ویسے بھی فنکار کے مذہب سے زیادہ اسکے فن پر لوگ توجہ دیتے ہیں ،ہمارا یہ کہنا غلط نہیں کہ لتا کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔بین الاقوامی سطح پر مشہور میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمن نے غلط نہیں کہا کہ”جو خلا لتا چھوڑ گئی ہے وہ پُر نہیں ہوسکتا”اور موسیقی کے تخت پر راج کرنے والے بڑے غلام علی محمد خان نے لتا کو سن کر کہا تھا ”کمبخت کبھی بھی سُر سے باہر نہیں ہوتی”یہ انکا لتا کے لئے خراج تحسین تھا۔ہم نے پچھلے ہفتوں کے پاکستانی اور ہندوستانی اخبارات اور میڈیا پر لتا کے لئے لکھی باتوں پر غور کیا اور کسی سے متاثر نہ ہوسکے۔شاید ان کے پاس الفاظ نہ تھے یا یہ نئی جنریشن سوچ سے خالی ہے۔وہاں بہت کم ذکر تھا جنہوں نے لتا کو لتا بنانے میں محنت کی تھی اور ان کے لئے سٹوڈیوز اور فلمسازوں، ہدایت کاروں سے لڑے تھے۔سب سے پہلا نام ہے غلام حیدر کا جو نوشاد سے پہلے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو بڑھا رہے تھے۔لتا کو سن کر ہر میوزک ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ یہ آواز بے حد پتلی ہے وہ دور شمشاد بیگم، راجکماری اور زہرہ بائی انبالہ والی کا تھا جن کی کراری آواز سب فلم بینوں کے دلوں پر راج کرتی تھی۔راج کماری کے گانوں کی دھوم تھی۔
فلم مجبور کے لئے غلام حیدر لتا کو متعارف کرانے اسٹوڈیو والوں سے اڑ گئے انکی ضد تھی کہ لتا ہی گائے گی۔بہرحال ان کی بات مانی گئی اور لتا نے یہ گانا گا کر ”دل میرا توڑا اور مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار میں”فلموں سے پلے بیگ گانے کا آغاز کیا یہ صحیح ہے کہ راجکماری اور زہرہ بائی کے ہوتے ہوئے لتا نے نام پیدا نہیں کیا۔1949کا سال لتا کے لئے کامیابیوں کا سال بنا کر ایک کے بعد دیگرے انکے گانے گھر گھر78آر پی ایم پر سنے جانے لگے۔اور کامیابی کا سہرہ کھیم چند پرکاش کے سر رہا جنہوں نے کمال امروہوی کو وچن دیا کہ یہ گانا فلم کی پہچان بنے گا۔اور فلم انڈسٹری کو ایک نئی آواز ملے گی یہ گانا فلم محل کا تھیم سونگ تھا۔اور شروع سے آخر تک29منٹ پر پھیلا ہوا تھا بول تھے”آئے گا آنے والا”کھیم چند کی مدھر دھن نے فلم میں چار چاند لگا دیئے اور یوں کمال امروہوی نے بھی شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اسکے شاعر تھے تحشب جارچوی(جو پاکستان آگئے)اور فلم فانونس بنائی1949میں لتا جی کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں”انداز،” ”برسات” دل لگی، شبنم، بڑی بہن، پتنگا اور دلاری جیسی فلموں کے میں لتا کے گائے گانوں نے پورے ہندوستان اور پاکستان میں مقبولیت اور پسندیدگی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔برسات کے گائے”ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپتہ، جیا بے قرار ہے، برسات میں ہم سے ملے تم اور”بچھڑے ہوئے پردیسی گلی گلی دھوم مچائی۔یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ لتا منگیشکر تھیں جنہوں نے فلم کے کریڈٹ میں سنگر کانام دینے پر زور دیا جب ریکارڈ پر فلم محل کے گانے آئے گا آنے والا کے سنگر لتا کی جگہ کا منی کا نام دیا گیا لتا اس بات پر لڑ گئیں کہ یہ گانا مدھوبالا نے نہیں گایا ہے۔تب ریکارڈ کمپنی(HMV)نے ریکارڈ کے آنے والے ایڈیشنوں میں لتا کا نام لکھا۔لیکن پھر بھی1953تک اسی فیصد فلموں کے ٹائیٹل سنگر کے نام کے بغیر تھے۔البتہ راج کپور نے اپنی فلموں سے سنگر کا نام ڈالنے کا آغاز کیا اور”آوارہ”فلم میں ایسا ہوا آہستہ آہستہ دوسرے اسٹوڈیوز نے بھی کاپی کی۔یہ حیرت انگیز بات تھی کہ فلمیں جن کی شہرت اور کامیابی کا سہرہ گانوں کی وجہ سے بندھتا تھا سرے سے کسی کو خیال نہ تھا۔البتہ گلزار اور ساحرلدھیانوی برابر اس پر زور دیتے ویسے عرف عام میں یہ ہی کہا جاتا تھا کہ عشق، مشک اور لتا کی آواز چھپے نہیں چھپتی۔
جہاں لتا منگیشکر تقریباً ہر موسیقار اور ہدایت کار کی پسند تھیں ایکڑ اور ایکڑیس بھی یہ ہی تقاضہ کرتے تھے۔یہ بھی واقعہ ہے کہ فلم ”انمول رتن میں میوزک ڈائریکٹر نے کرن دیوان سے کہا تھا آپ چاہیں تو اس ڈوئیٹ(یاد آنے والے پھر یاد آرہے ہیں)کے لئے طلعت محمود کے ساتھ لتا جی کے لئے اسٹوڈیو جسیمنی پر زور دیں لیکن کرن کی جگہ ڈائریکٹر ایم صادق نے لتا کے لئے ضد کی۔اور یہ ڈوئیٹ گانا اس وقت میں مقبول ترین ثابت ہوا جو لتا اور طلعت کی آواز میں تھا ہر چند کہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔ڈوئیٹ کی بات ہو رہی ہے تو لکھتے چلیں پچاس کی دہائی میں کافی مقبولیت ملی۔1951کی بہترین رومانٹیک فلم”ترانہ میں دلیپ اور مدھوبالا پر طلعت محمود اور لتا کی ہی آواز میں ہر کسی کی زبان پر تھا۔لکھتے چلیں کہ1949میں فلم آئی”انداز” میں پہلے ہی لتا جی کے ہر گانے نے ریکارڈ توڑے تھے۔”اٹھائے جا ان کے ستم، کوئی میرے دل میں خوشی بن کے آیا اور فلم ”آوارہ” اور فلم آن نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا دیا تھا۔دونوں فلمیں1954کی ریلیز ہیں ایک طرف راج کپور اور مقابل محبوب خان جو پہلی رنگیں فلم آن لائے۔دونوں فلموں کے تمام گانے اور دونوں فلموں میں خواب کے مناظر نے ایک سحر میں مبتلا کر دیا تھا فلم بینوں کو راج کپور نے فلم انداز کے گانے کوئی میرے دل میں”کو فلم آوارہ میں شنکر جے کشن کی میوزک میں نیا روپ دیا تھا گانا تھا”جب سے بلم گھر آئے” فلم آن کے اس گیت”تجھے کھو دیا ہم نے” نے فلمسٹار نادرہ کو جو پہلی بار نرگس کی جگہ تبدیل کی گئی تھیں، مشہور کردیا کہ تماشبین نرگس کو بھول گئے یہ بھی لکھتے چلیں کہ محبوب خان جو فلموں میں تجربے کے لئے مشہور ہوئے تھے نئے گیت کار مجروح سلطان پوری کو متعارف کرایا تھا اور ان کے لکھے دس گانے پورے ہندوستان میں مقبولیت اور پسندیدگی کا ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔نوشاد علی جو خود مشہور ہیں نے آل انڈیا ریڈیو کے انٹرویو میں اپنی پسند کے گانوں میں لتا منگیشکر کے فلم گائیڈ میں گائے اس گانے کو پسند کیا تھا۔”کانٹوں سے چھین کے یہ آنچل” اور یہ بھی سند کے طور پر شمع دہلی کے ادریس دہلوی نے1958میں محبوب خان کے انتقال سے پہلے لتا جی سے فرمائش کی تھی رسک بلمادل کیوں لگایا کی جو فلم ”چوری چوری” میں لتا جی نے گایا تھا۔محبوب خان ہالی وڈ میں آسکر ایوارڈ میں آئے تھے کچھ دوسرے پہلو بھی لکھتے چلیں کہ دلیپ کمار نے انہیں اپنی چھوٹی بہن بنایا تھا۔لیکن ساتھ ہی وہ بے حد حساس تھیں او پی نیر کی اپنی آواز پر تنقید سے لتا جی نے اوپی نیر کے لئے کبھی گانے نہیں گائے اور ایس ڈی برمن سے ناراضگی پر وہ5سال تک ان سے روٹھی رہیں۔رفیع صاحب کے لئے بھی عرصہ تک گانے نہیں گائے اپنی سگی بہن آشا بھوسلے سے بھی ناچاقی رہی اتنی بڑی فنکارہ کے لئے مناسب نہیں وہ نریندر مودی(وزیراعظم انڈیا) کی بہت بڑی چاہنے والی تھیں ،لتا جی کا کہنا تھا ”نریندرمودی کے دوبارہ جیتنے پر ہندوستان کی تصویر تمہارے آنے کے بعد بدل رہی ہے” درست بدل کی جگہ ”بگڑ” مناسب ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی کوئی فلم اس کے بغیر نامکمل تھی ان کا آخری گانا2019میں ”سوگند مجھے اس مٹی کی”تھا۔ان تین صفحات پر ہم لتا جی کے فن پر مزید کہنے سے قاصر ہیں اسے ٹریلر کہہ سکتے ہیں۔
٭٭٭