اللہ اکبر…GOD IS GREATEST!!!

0
80
شبیر گُل

بھارت میں مسکان کے اللہ اکبر کے نعرہ وائرل ہونے کے بعد گوگل پر لاکھوں لوگ سرچ کرتے رہے کہ اللہ اکبر کے کیا معنی ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ اسے مختلف معنی اپناتے نظر آئے۔ اللہ اکبر کے معنی جسٹس کی ڈیمانڈ اور رول اینڈ لا ہے ،اللہ اکبر کے معنی تم مجھے ڈرا ،دھمکا نہیں سکتے۔ اللہ اکبر کے معنی میں آپ سے کمزور نہیں ہوں، وغیرہ وغیرہ جو سوشل میڈیا پر اپنے اپنے انداز میں بیان ہوئے ۔
اللہ بڑا سب سے بڑا، سب سے بڑا ہے
کر اس کی بڑائی کہ یہ ہے شان اسی کی
تخلیق ہے ہر چیز ہر انسان اسی کی
ناداں ہے جو کہتا ہے کوئی رب سے بڑا ہے
قارئین ! جیسا کہ آپ جانتے ہیں اللہ کائنات میں سب سے بڑا، سب بڑوں سے بڑاہے۔ کائنات کی تمام تخلیقات،تمام ایجادات ، تمام تجلیات، زمین وعرش پہاڑ، پانی ،سمندر، جن و انس، تمام مخلوقات اسی بڑے کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ چاند،سورج ،ستارے اور سیارے اسکے بنائے ہوئے ہیں اور اسکے بنائے گئے محور کے گرد گھومتے ہیں۔ آسمان بغیر ستونوں کے اور پھر ہر سیارہ دوسرے سے ہزاروں ،لاکھوں اور کروڑوں گنا بڑا ہے اورپھر جب انسان اپنی تخلیق ،اسکی خدوحال ۔ ان سب کو دیکھ کر جب انسان اللہ اکبر کہتا ہے تو دراصل اسکی بڑائی، کبریائی، الوہیت بیان کرتا ہے۔ مسکان نے جب اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو اسکے معنی یہ تھے کہ میں اس ہجوم سے نہیں ڈرتی، میرے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ جو بہت بڑا ہے۔
مٹ جائے گا سب کچھ وہ بڑا پھر بھی رہے گا
جب کچھ بھی نہ ہو گا، وہ بڑا پھر بھی رہے گا
جب اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا، تب سے بڑا ہے
اللہ بڑا سب سے بڑا سب سے بڑا ہے
اللہ تعالی نے اسلام کو ایک مکمل جامع دین اور حیات کا ذریعہ بنایا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حقوق و فرائض کا کامل نظام عطا فرمایا۔جسے بڑے بڑے مغربی اسکالربھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن مغربی تہذیب کے دلدادہ مسلمان اس کے آفاقیت کوتسلیم کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی غالب اکثریت تو ابھی تک پرانی روایات اور قدیم نظام اقدار سے وابستہ ہے۔ جبکہ معاشرے کا بااثر طبقہ جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی ہے۔ مغربی تہذیب کو زندگی کی معراج سمجھتا ہے۔ انسان کا ناقص فہم دین اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ قرآن کے احکامات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو چھوڑ کر حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ گزشتہ بیس سال میں ، اخلاقی اقدار،تہذیب و تمدن بدل چکا ہے۔ جس کے رو میں ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے بہہ چکا ہے۔ ہم اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ آج ایک بچی نے بھارت میں اللہ وحدہ لا شریک کی کبریائی کا نعرہ بلند کرکے ہمیں جھنجھوڑ دیا ہے۔ کہ مذہبی اور اخلاقی اقدار کی کمزوری اور کمپرومائز ،بزدلوں اور نا مردوں کا کام ہے۔ میں مسکان ہوں جو نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوں کہ ہمیں اپنی شناخت پانے کی لئے کھوئی ہوئی اقدار کو زندہ کرنا ہے۔ ہم معاشرے میں کسی سطح پر بھی ذمہ دار ہوں، اپنی ذمہ داریوں کا ادراک بحیثیت خلیفہ کرنا ہوگا۔ اللہ نے ہمیں دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ ہمارا کام معاشرے کے بگاڑ کو درست کرنا ہے۔ فضا بدر پیدا کرنی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ زندگی میں کائنات کے سردار ، نبیوں کے امام ،خضور اقدس سے رہنمائی لینا ہے۔ ہمیں زندہ رہنے کے لئے مرعوبیت اور خوف سے باہر آنا ہوگا۔آج بھارت میں ، کشمیر میں ظلم و جبر کی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ بچیوں کر سروں سے دوپٹے نوچے جارہے ہیں لیکن ہم اپنی مذہبی اقدار کو بچانے کی بجائے بلوں میں گھس کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے مغربیت سے مرعوب دانشور بہت بخیل ثابت ہوئے ہیں۔ انکی زبان ،انکا قلم خاموش ہے۔ کیونکہ انکو ہڈیاں اپنوں پر بھونکنے کی ملتی ہیں۔ بھارتی مظالم پرانکے لب سلے ہیں۔ بھارت میں گائے ذبیح کرنے پر ہندو فسادات شروع کردیتے ہیں۔ قتل عام شروع کردیتے ہیں بستیاں جلائی جاتی ہیں۔ لیکن مسلم حکمران خاموشی سے یہ ہولناکیاں دیکھتے ہیں۔ اس سے بزنس کرتے ہیں۔ موسٹ فیورٹ نیشن کہتے ہیں۔ ہم بھارت میں تین سو ملین ہیں۔ ایک دوسرے کو کٹتے دیکھتے ہیں۔ سر سے دوپٹے کھینچے جاتے ہیں۔ حجاب نوچے جاتے ہیں۔ ہم بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن اپنی شناخت قائم کی ہے۔ حلال اور ذبیح پر کام کیا ہے۔
اب برطانیہ کے تمام سکول صرف حلال گوشت پیش کر رہے ہیں! یہ سب 66 ملین کی آبادی میں سے صرف 4 ملین مسلمانوں نے حاصل کیا! یہ آنکھ کھولنے والا ہے۔ مغربی استعمار کے پالتو دانشور خاموش ہیں۔ یہ صرف اسلامی اقدارکے خلاف بولتے ہیں۔ پردہ اور حجاب کے خلاف بولتے ہیں۔ توجیحات پیش کرتے ہیں۔ قرآن کے خلاف استفسارات کرتے ہیں۔ سیرت رسول پر اطمینان محسوس نہیں کرتے۔ مسلمان ہوکر گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ مغربی فلسفیوں کے اسلام کے حوالے سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔
1۔ لیو ٹالسٹائی (1828-1910)۔” اسلام ایک دن دنیا پر راج کرے گا، کیونکہ اس میں علم و حکمت کا مجموعہ ہے۔” 2۔ ہربرٹ ویلز (1846-1946)۔ جب تک اسلام دوبارہ اثر نہیں کرے گا، کتنی نسلیں مظالم سہتی رہیں گی اور زندگی کٹتی رہے گی، پھر ایک دن ساری دنیا اس کی طرف متوجہ ہوگی، اس دن امن ہوگا اور اس دن دنیا پھر سے آباد ہوگی۔ 3۔ البرٹ آئن سٹائن (1879-1955)۔” میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے اپنی ذہانت اور شعور سے ایسا کیا جو یہودی نہیں کر سکتے تھے۔ اسلام میں وہ طاقت ہے جو امن کا باعث بن سکتی ہے۔ 4۔ ہسٹن اسمتھ (1919)۔ جو ایمان اب ہم پر ہے اور جو دنیا میں ہم سے بہتر ہے وہ اسلام ہے، اگر ہم اس کے لیے اپنے دل و دماغ کو کھول دیں تو یہ ہمارے لیے اچھا ہو گا۔ 5۔ مائیکل نوسٹراڈیمس (1503-1566)۔” یورپ میں اسلام حکمران مذہب ہو گا، اور یورپ کا مشہور شہر اسلامک اسٹیٹ کا دارالحکومت بن جائے گا۔ 6۔ برٹرینڈ رسل (1872-1970)۔” میں نے اسلام کو پڑھا اور محسوس کیا کہ یہ ساری دنیا اور تمام انسانیت کا مذہب ہے۔ اسلام پورے یورپ میں پھیلے گا اور یورپ میں اسلام کے بڑے بڑے مفکرین اُبھریں گے۔ ایک دن آئے گا جب اسلام ہی دنیا کا اصل محرک ہوگا۔ 7۔ گوسٹا لوبون (1841-1931)۔” اسلام صرف امن اور مفاہمت کی بات کرتا ہے۔ عیسائیوں کو اصلاح کے عقیدے کی تعریف کرنے کی دعوت دیں۔” 8۔ برنارڈ شا (1856-1950)۔” ساری دنیا ایک دن دین اسلام کو قبول کر لے گی اور اگر اصلی نام بھی قبول نہ کر سکے تو استعارے کے نام سے قبول کر لے گی، مغرب ایک دن اسلام کو قبول کر لے گا اور اسلام ان لوگوں کا مذہب ہو گا جنہوں نے اسلام کی تعلیم حاصل کی ہے۔ 9۔ جوہان گیتھ (1749-1832)۔” ہم سب کو جلد یا بدیر دین اسلام کو قبول کرنا ہوگا، یہی اصل مذہب ہے، اگر مجھے مسلمان کہا جائے تو مجھے برا نہیں لگے گا، میں اسے صحیح مانتا ہوں۔” یہ چندمغربی فلاسفرز کے اقتباسات تھے جو غیر مسلم ہو کر اسلام کی حقانیت کا ادراک رکھتے تھے اور ہم مسلمان ہوکر تذبذب کا شکار ہیں۔ جس کا خمیازہ میں بھارت ، فلسطین ، اور شام میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایک ہی محلے میں چار چار فرقوں کی مسجدیں بناکر جنگ و جدل کرتے ہیں۔ لیکن جمعہ وعیدین کے اجتماعات میں اُمت مسلمہ کے اتحاد کی دعائیں کرتے ہیں۔ شائد ہمارے اندر مسکان جیسی ایمانی حرارت نہیں کہ اللہ اکبر کے مطالب و معنی سمجھ سکتے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here