وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے اگر بیس سال تک اپنی حدود میں رہیں تو ملک ترقی کر جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں اور اداروں کو مل کر کام کرنا چاہئے ،مستقبل کے لئے دیرپا فیصلے ہونا چاہئیں ۔وزیر اعظم نے قومی جذبے کے ساتھ کہا کہ آئندہ انتخابات جو بھی جماعت جیتے وہ سب کو ساتھ لے کر چلے ۔وزیر اعظم اپنی جماعت کے ان چند رہنماوں میں سے ہیں جو سول ملٹری تعلقات میں بہتری کو قومی ترقی کے لئے ضروری خیال کرتے ہیں۔ان کی جانب سے جب اداروں کی بات ہوتی ہے تو اس میں مسلح افواج ،عدلیہ اور افسر شاہی بھی شامل سمجھی جاتی ہے ۔ ملک چلانے اور اس کی پالیسیاں تشکیل دینے میں یہی ادارے حکومت کی مدد کرتے ہیں ۔ وزیر اعظم جو بات قومی مفاد کے تناظر میں کہنا چاہ رہے ہیں وہ اصطلاحی اعتبار سے بیلنس آف پاور کا تصور ہے۔جس طرح بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا توازن تجارت ، دفاعی معاہدے ، تنازعات سے گریز،خود مختاری کا تحفظ اور نظام کی شفافیت سے تشکیل پاتا ہے اسی طرح داخلی استحکام کے لئے لازم ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور افسر شاہی اپنے معاملات آئین کے تابع رکھیں۔آئین ہی کسی جمہوری معاشرے میں وہ بنیادی دستاویز ہے جو اختیارات کی تقسیم کی وضاحت کرتی ہے۔آئین میں سب سے مقدم عوام ہوتے ہیں ۔حکومت اور ادارے عوام کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں ۔وطن عزیز میں جب جب آمریت آئی اس کا مطلب آئین کی خلاف ورزی تھا۔کئی بار منتخب جمہوری حکومتیں آئین کے تحت ملی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہیں ،دیکھا جائے تو اسے بھی آئین سے انحراف سمجھا جا سکتا ہے لیکن اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ سادہ بات نہیں ،اسے سیاسی قوتوں کے بدلتے مفادات کے تناظر میں مختلف زمانوں میں الگ الگ شکل میں شناخت کرنا ہو گا۔مثلا الیکشن کمیشن کا ایک ہی کام ہے کہ وہ ملک میں ہر نوع کے انتخابات کا انتظام کرے ۔بلدیاتی انتخابات کا سلسلہ غیر یقینی پن کا شکار رہتا ہے۔صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتیں ۔انہیں خوف ہے کہ ترقیاتی کام کرانے کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس نہ رہا تو لوگ کسی ایم پی اے اور ایم این اے کے پاس نہیں جائیں گے۔کیا یہ رویہ معقول کہلائے گا کہ صرف لوگوں کو اپنے دروازے پر جمع رکھنے کے لئے اراکین اسمبلی بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کرتے ہیں؟ ایک مسئلہ اداروں کی حدود کسی بحرانی یا ہنگامی حالت میں نرم کرنے کا ہے۔ایک زمانے میں گھوسٹ سکولوں کی نشاندہی کے لئے فوج سے مدد لی گئی ، پھر گھوسٹ اساتذہ کا پتہ چلانے اور بجلی چوری روکنے کے لئے پاک فوج سے مدد لی جاتی رہی، سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات کی صورت میں پاک فوج ہی سب سے پہلے مدد کو بلائی جاتی ہے ۔یقینی طور پر یہ مسلح افواج کا کام نہیں لیکن چونکہ سیاسی انتظامیہ نے متعلقہ اداروں کی استعداد بڑھانے اور لوگوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی اس لئے مسلح افواج اپنی صلاحیت کو اس خدمت کے لئے وقف کر دیتی ہیں۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ سیاسی رہنما اداروں کی حدود سے متعلق اپنا موقف تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ اپوزیشن میں جو موقف اختیار کرتے ہیں اقتدار میں آکر اس سے الٹ پالیسی صادر کر دیتے ہیں۔حالیہ مہینوں میں دیکھا گیاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا۔یہ فیصلہ دینا سپریم کورٹ کا اختیار تھا ۔ حکومت اور اس کے ذیلی اداروں پر لازم تھا کہ وہ اس حکم پر عمل درآمد کرتے ۔افسوسناک صورتحال تب پیدا ہوئی جب الیکشن کمیشن اور حکومت نے انتخابات میں رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دیں۔آخر سپریم کورٹ خاموش ہو گئی۔یہ سوال عدالت عظمی نے بہر حال چھوڑ دیاکہ انتظامیہ نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی پرواہ کیوں نا کی ۔جمہوریت کے جدید تصورکی ابتدا کو سیاسی معاشروں میں طاقت کے ذریعے ادا کیے جانے والے کردار کی ایک معیاری تعریف کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ مثالی جمہوریت کا تصور لاک، مونٹیسکیو اور روسو کے کام سے ابھرتا ہے، اندرونی طور پر طاقت کی حدود کا تعین ایک خاص تشریح سے متعلق ہے۔ اختیارات کی تقسیمکے نظریہ کے ساتھمنشائے عام کی خودمختاری کا تصور بھی اہم ہے ۔ عوام لامحالہ یکطرفہ حکومت کے نتیجے میں معاشرے کے انتظامی ڈھانچے کو جائز نہیں سمجھنے لگتے ۔منصفانہ نظام کی تشکیل کے لیے وہ جمہوری تصور کی بنیاد پرمعیاری رہنما اصول تلاشکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمہوری اداروں کی قدر کسی معاشرے کے شہریوں کے درمیان طاقت کی مساوی تقسیم کے حصول میں نہیں پائی جاتی۔ طاقت کی تقسیم اس سے زیادہ بنیادی امور کے لیے اہم ہے، جیسا کہ فرد کی آزادی کا تحفظ اور اس سے بھی زیادہ نمایاں طور پر، اجتماعی فیصلہ سازی کے عمل میں انفرادی مفادات کا مساوی خیال۔وزیر اعظم کے خیالات سے اس حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ سماجی امن برقرار رکھنے کے لئے تمام اداروں کو آئین کے تابع رہ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن یہ پاکستان میں درپیش آئینی و قانونی کشکمش کے تناظر میں مکمل بات نہیں ۔پاکستان اداروں کے حدود سے تجاوز کے ساتھ اداروں کی تکریم نہ کرنے اور ان کے آئینی کردار کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے عدم استحکام کا شکار ہوا ہے ۔ترقی کے لئے سماج میں امن و استحکام لازم ہوتے ہیں۔یہ نا ہوں تو ترقی کا کوئی فارمولہ کارگر نہیں رہتا ۔
٭٭٭