ماضی میں بھٹو شہید نے اپنی کتاب میں لکھا تھا اگر مجھے قتل کیا گیا تو نہ جانے کونسے کونسے نقصانات ہونگے جو ہوئے کہ پاکستان آج تک سنبھل نہیں پایا ہے جس میں عربوں کے ساتھ رشتہ کمزور ہوا ،افغان جہاد یا فساد برپا کرکے پاکستان تباہ وبرباد کیا گیا، ملک میں جان بوجھ کر دہشت گردی جیسی لعنت کو پرموٹ کیا گیا جس کے بعد پاکستان سرمایہ کاری جیسے معاشی اور مالی مشکلات میں مبتلا ہوگیا ،ملک میں دو دفعہ فوجی مارشلا نافذ ہوا جس نے آج بغاوت کی شکل اختیار کرلی ہے کہ جس میں حاضر ڈیوٹی جنرل جج اور سابقہ جنرل بھی شامل ہیں۔ پاکستان بھی وقت دیوالیہ پن کے مرض میں مبتلا ہے، پاکستان اور بھارت جو قریب آرہے تھے وہ دور ہوگئے وغیرہ وغیرہ بھٹو کو دیکھ کر عمران خان نے بھی یہی نعرے بلند کرنے شروع کردیئے اگر مجھے قتل کیا گیا پاکستان ٹوٹ جائیگا کافی عرصہ تک وہ اپنے قتل کی داستان سناتا رہا پھر انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو پاکستان تین حصوں اور فوج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی جو ہوا کہ عمران خان کو باقاعدہ ایک منصوبہ بندی سے عدالت کے احاطے سے گرفتار کیا گیا جو ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ پولیس کی بجائے نیم فوجی ادارے رینجر نے انہیں گرفتار کیا حالانکہ پولیس بھی انہیں عدالت کے باہر ان کے عدالتوں کے وارنٹوں پر گرفتار کرسکتی تھی مگر یہ ایک منصوبہ بندی تھی چنانچہ ان کی گرفتاری پر عاشقان عمران نے پاکستانی فوج کے اداروں پر حملے کردیئے جس میں حاضر ڈیوٹی لاتعداد فوجی جنرل بریگیڈیئر اور دوسرے افسران نے جان بوجھ کر عمرانی جھتے بازوں اور بلوائیوں کو چھائونیوں، بیرکوں، دفتروں، تنصیباتوں ہیڈکوارٹروں اور کورکمانڈرز ہائوس پر آنے کی اجازت دے دی سابقہ فوجی افسران کے خاندانوں نے باقاعدہ فوج کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا جس میں سابقہ آرمی چیف جنجوعہ مرحوم کی نواسی، جنرل جمیل حیدر کی بیگم روبینہ جمیل اور داماد اور دوسرے سابقہ فوجی افسران کے خاندانوں نے بڑھ چڑھ کر فوج پر حملے کیئے جبکہ ججوں کے خاندانوں کے افراد نے فوجی تنصیباتوں پر حملے کئے ہیں جس میں جج بندیال کا بھانجا کور کمانڈر جنرل سلیمان غنی، لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس امیر بھٹی کے داماد فیصل ساہی جنہوں نے فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر کو جلا دیا ہے جس کے علاوہ دو سو سے زیادہ فوجی تنصیباتوں یادگاروں کو جلایا گیا ہے جس میں سو سے زیادہ افراد کیخلاف تحقیقات ہو رہی ہے کہ کون اور کن لوگوں نے فوجی اداروں پر حملہ کیے ہیں تاکے آئندہ کوئی فوج پر حملہ آوری نہ کر پائے۔ تاہم بغاوت میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے عمران خان کو اس نہج پر پہنچایا ہے جو آج فوج کے اندر تقسیم پیدا کر رہا ہے جس میں اقتدار کے علاوہ کچھ نہ تھا اگر فوج لیبیا، مصر یا افغانستان اور عراق کی طرح انقلاب برپا کرتی جس میں ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں گماشتہ سرمایہ داریوں رسہ گیروں کا محاسبہ ہوتی۔ انگریزوں کی عطا کردہ جاگیرداروں اور وڈیروں سے زمینیں چھین کر ہاریوں میں اور کسانوں میں بانٹ دی جاتی تو اس فوجی بغاوت کو انقلاب قرار دیا جاتا چونکہ پاکستانی فوج کے افسران بذات خود استحصالی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو مفت میں ہزاروں ایکڑ زمین ہر سال ریٹائرمنٹ کے بعد دی جاتی ہے باقی آلاٹ پلاٹ کا کرپشن الگ ہے علاوہ ازیں تمام سابقہ فوجی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمتیں دی جاتی ہیں لہذا ان کی بغاوت صرف ایک مخصوص منصوبے کے لئے تھی۔ جس میں دس سالہ آمریت، فسطائیت اور استحصالیت تھی جو فی الحال ناکام ہوچکی ہے مگر اتنا آسان نہیں ہے کہ مجوزہ باغی جنرل اور جج صاحبان خاموش رہیں جن کے منہ میں خون لگا ہوا ہے وہ دوبارہ موقع ملا تو شکار کریں گے جس میں موجودہ آرمی چیف سمیت پارلیمنٹ انتظامیہ اور عدلیہ بھی شکار ہوگی جس کے بارے میں بزدل طاقت مارشلا ہوگا جس کا منصوبہ بنایاگیا تھا کہ 9مئی کی بغاوت کے بعد ملک پر مارشلاء نافذ ہوگا، اقتدار میں عمران خان کو نام نہاد الیکشن کے ذریعے لایا جائے گا جس میں دس سال تک من پسند جنرل کی آرمی چیف بندیال جج اور جج اعجازالحسن کو چیف جسٹس بنایا جائے گا جس کا ظاہر عمران خان بطور صدر ہوگا مگر حکمران کوئی آرمی چیف جنرل اور چیف جسٹس ہوگا جو سابقہ مارشلائوں کی طرح آئین میں ردوبدل کو جائز قرار دیتا رہے گا جو پاکستان کو توڑنے تک جاری رہے گا۔
٭٭٭٭