پاکستانی سیاست میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی!!!

0
106
پیر مکرم الحق

پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعتوں میں14مئی2007ء میں محترمہ بینظیر اور نوازشریف کے درمیان طے پانے والا میثاق جمہوریت کے معاہدے کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان شدت پسندی میں ایک واضع کمی آئی تھی اور درجہ حرارت بھی کم ہوا تھا۔پاکستان کی عوام نے بھی سکون کا سانس لیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ ماحول طاقتور اداروں کو راس نہیں آیا ا ور اسی سال27دسمبر کو محترم کو لیاقت باغ کے جلسے کے بعد شہید کردیا گیا۔سیاسی انتقام کی آگ کو مدھم کرنے کیلئے جوNROاین آر او لایا گیا تھا۔اسے بھی واپس لے لیا گیا اور پھر رفتہ رفتہ پی پی پی کو پنجاب سے ختم کروا کر سندھ تک محدود کروا دیا گیا اور پھر نوازشریف کو بھی اقتدار سے الگ کرکے عمران خان کو پنجاب میں پی پی پی کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا۔اسے پر کرنے کیلئے اور نوازشریف کے پنجاب میں اثرورسوخ کو کم کرنے کیلئے پی ٹی آئی کو لایا گیا بااثر قوتوں کی حمایت کے بغیر پختونخواہ کے علاوہ عمران خان کبھی بھی پنجاب میں منتخب نہیں ہوسکتا تھا۔اب بھی نہیں ہوسکتا تھا۔گجرات کے چودھری، پنڈی کا شیخ اور جنوبی پنجاب کے ترین،خاکوانی قریشی اور مخدوموں کے بغیر وہ کبھی بھی اسلام آباد تک نہ پہنچ سکتے تھے نہ کبھی پہنچیں گے۔اسٹیبلشمنٹ کے پالتو ہے چند خاندان ہر برسراقتدار جماعت کے ہمراہ ہوتے ہیں۔یا ان حکومتوں اور جماعتوں پر تھوپ دئے جاتے ہیں۔بہرحال جیسے بھی آئے ہے موجودہ حکومت نے آنے کے بعد اپنی ناقص کارکردگی کو چھپانے کیلئے سوشل میڈیا میں ٹرولرز کا ایک بدمعاشBULLYگروپ لے آئے جس کا کام ہے کہ مخالفین کو گالیاں دینا اور دھمکیاں دے کر مخالفت کو دبانے کی کوشش کرنا جس سے ماحول نہایت گندہ اور سیاست میں تشدد کا رحجان پیدا ہو رہا ہے جو آگے جا کر نہ ملک کیلئے نہ ہی تحریک انصاف کے کارکنان کیلئے بہتر ہوگا۔خصوصاً پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے روانہ ہونے کے بعد عمران خان تو لندن روانہ ہوجائیں گے۔پیچھے ن لیگ کے جیالوں نے کھلاڑیوں کا وہ حشر کرنا ہے کہ رہے نام سائیں کا!!بدتمیزی اور گالم گلوچ کرنے والے ٹرولرز تو اپنے اکائونٹ بند کرکے کسی اور جماعت یا کمپنی کیلئے کام کرنا شروع کردینگے۔شامت آئیگی بچارے کھلاڑی کارکنوں کی جنہیں پھر سامنا ہوگا اندرون شہر کے متوالوں سے پھر بھاگنے کی جگہ نہیں ملنی۔اسلئے تمام سیاسی کارکنوں سے التماس ہے کہ”ہتھ ہولا” رکھیں۔اقتدار آنے جانے والی شے ہے آج عمران ہے کل اس نے بھی نہیں رہنا ، بادشاہی میرے رب کی رہنی ہے۔باقی دنیا کے بڑے بڑے فرعون نہیں رہے اسلئے سیاست کا ماحول صاف ستھرا رکھنا سب کے لئے بہتر ہے پڑھے لکھوں والی سیاست کریں گنڈا سے کی سیاست میں ساروں کی ”لتاں ٹٹینں پن”تو ایسی فصل نہ بوئیں جو پھر کاٹنی اوکھی ہوجائے۔سمجھدار کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔کل پاکستانی صحافت کا مرد قلندر بھی دنیا سے روانہ ہوگیا۔کسی اخبار نے اداریہ نہ رکھا کوئی ٹی وی پر شو نہیں ہوا اس بیچارے کی موت کا سی آر شمسی بھٹو صاحب کے دور میں1975میں صحافت کی دنیا میں داخل ہوا جیلیں کاٹیں اظہار رائے کی آزادی کیلئے منہاج برنا اور اے آر رحمان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر لڑتا رہاPFUJکا سیکرٹری جنرل بھی رہا۔چکوال کا ایک غریب گھرانے کا شمسی سب صحافیوں کا یارغار تھا جہاں جگہ مل گئی سولیا جو کھلایا کھالیا۔عزت کمائی پیسہ نہیں کمایا کئی سال پرانی موٹرسائیکل پر ادھر ادھر بھاگتا رہا ابھی کچھ دن پہلے موجودہ حکومت کی تجویز صحافتی پابندیوں کے خلاف حامد میر کے ساتھ دھرنے میں ساری رات کھلے آسامیاں تلے احتجاج کرتا رہا کل مر گیا خاموشی سے پہلا ویج بورڈ صحافیوں کو دلوانے والا شمسی ہمارا یار ہمارا ساتھی چلا گیا کئی شامیں اسلام آباد میں شمسی کی نشست میں گزریں۔پاکستان کی صحافت کا گمنام سپاہیCR SHAMSچلا گیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here