امریکہ اور پاکستان کے مابین کئی سالوں سے ایک دوسرے کے ممالک کے سکالر ، جرنلسٹ ،وکلا ، ڈاکٹروں ،سائنسدانوں، ججز، سیاستدانوں کو ایکسچینج پروگرام کے تحت دورہ امریکہ کی دعوت دی جاتی تھی جوکہ کیری لوگر فنڈنگ کے ذریعے ہوتی تھی ، اب بھی کئی تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیز کبھی کبھار پاکستان سے سکالرز اور پروفیشنلز کو دعوت دیتے ہیں ان پروگرامز کا مقصد ایک دوسرے ممالک کے لوگوں سے ملنا، اداروں کے بارے میں جان پہچان کرنا ،سسٹم کا مشاہدہ کرنا شامل ہے، پاکستان سے اکثر جرنلسٹ ہوتے ہیں سینئر بھی اور جونیئر بھی ایک ایونٹ میں واشنگٹن میں پاکستان کے سینئر جرنلسٹ نے تو یہ کہا کہ جو بھی شخص پاکستان جائے وہ امریکی جمہوریت کا کچھ حصہ ساتھ لے جائے تاکہ امریکی جمہوریت کے بارے میں بھی پاکستانیوں کو آگاہی حاصل ہو سکے کہ کس طرح امریکہ میں صاف اور شفاف سیاسی نظم اور بغیر رنگ و نسل تفریق کے ہر امریکی شہری سیاست میں حصہ لے سکتا ہے، ہر پارٹی کے ہر رکن کا ایجنڈا عوام کی بہتری اور لا اینڈ آرڈر میں بہتری، تعلیم میں ترقی، روز مرہ اشیاء کی قیمتوں پر نظر ،روڈ سسٹم، تمام کی تمام ترجیحات عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہوتی ہیں ،امریکہ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی تعداد لاکھوں میں ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے، پاکستانی کمیونٹی امریکہ کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی طرح اپنی خدمات انجام دے رہی ہے اور اچھے مستقبل اور حال میں خوشحال زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پاکستانی کمیونٹی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی دن رات کوششوں میں مصروف ہے بجائے اس کے کہ امریکی سیاسی سسٹم میں شرکت کر کے پاکستان امریکہ کے مابین پُل کا کردار ادا کریں، پاکستانی پارٹیوں کے چکروں میں اپنا اور دوسروں کا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سیاسی پارٹی ہے اور بیرون ممالک میں عمران خان کو بہت سراہا جاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے عمران خان ایک دیانتدار، نڈر، بہادر اور حقیقت پسند رہنما ہیں جو کامیابی سے پاکستان میں ریفارمز لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ میں عمران خان کا ایک حلقہ احباب اور سپورٹرز موجود ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے امریکہ میں پی ٹی آئی میں فصلی بٹیرے شامل ہو چکے ہیں جن کی سربراہی نام نہاد سابق سینیٹر کر رہے ہیں، پارٹی کے اندر انتخابات کا ڈرامہ رچا کر نہ صرف پہلے سماجی گروہوں میں بٹی ہوئی کمیونٹی کو مزید بگاڑ دیا، اس کیساتھ ساتھ مالی کرپشن کا بھی آغاز کر دیا ،پورے امریکہ میں تقریباً چھ ہزار کے قریب ووٹر رجسٹر کئے گئے جن کی ایک ووٹ کی رجسٹریشن فیس ساٹھ ڈالر ہے جو پارٹی کے عہدیداروں نے خود اپنی جیب سے ادا کئے، ورجینیا میں دونوں گروپوں نے تقریباً ساٹھ ہزار ڈالرز رجسٹریشن پر لگائے۔ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر بنتے ہیں جو پاکستانی دو کروڑ روپے کے لگ بھگ ہیں حقیقت میں کوئی بھی ووٹر اصلی ووٹر نہیں ہے کیونکہ کسی نے کوئی رجسٹریشن فیس ادا نہیں کی ،یہ رقم کہاں گئی اور کس کو فائدہ ہوگا اوورسیز پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری سابق سینیٹر کمیونٹی کو گروپوں میں تقسیم کر کے آپس میں دشمنیوں کا آغاز کر کے کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، ان کے کیا مقاصد ہیں؟ اس نازک وقت میں جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اچھی سطح پر نہیں ہیں امریکی سینیٹ میں پاکستان پر پابندیوں کی بازگشت سنی جا سکتی ہیں بجائے اس کے کہ امریکی سیاست میں متحرک ہو کر پاکستان کیلئے کام کیا جائے یہ صاحب پاکستان کی گندی کرپٹ سیاست کو امریکہ لے آئے ہیں یہ صاحب وزیراعظم عمران خان کے تبدیلی کے نعرے و نظریے کو کس طرح نقصان پہنچا رہے ہیں اس کا اندازہ ان کی ان حرکتوں سے لگایا جا سکتا ہے پاکستان کی گندی سیاست کا آغاز کر کے کس قدر سکون محسوس کر رہے ہیں اب جن لوگوں نے کروڑ کروڑ روپیہ لگایا ہے وہ اپنے پیسوں کی واپسی کس شکل میں چاہیں گے یہ لمبی بحث ہے اس سابق سینیٹر نے جس طرح تین سالوں میں پی ٹی آئی یو ایس اے کا بیڑہ غرق کیا ہے سب کے سامنے ہے ،اب بھی انتخابات کے نام پر یہ تمام ورکروں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رفو چکر ہونے کے چکر میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ جس طرح اوورسیز پاکستانی ان کیلئے اور ملک کیلئے اہم ہیں ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کیلئے کسی پروفیشنل ایماندار شخصیت کو اوورسیز کا سربراہ مقرر کریں جو خاص طور پر امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کو اکٹھا کرے اور کمیونٹی میں پھوٹ ڈالنے کی بجائے اتفاق اور اتحاد پیدا کر کے امریکی سیاست میں روشناس کروائے تاکہ پاکستان کی ترقی میں یہ کمیونٹی مزید فعال کردار ادا کر سکے۔
٭٭٭