قارئین وطن! خیر سے ٩٢ کی صبح ڈھائی بجے اپنے شہر لاہور کی مٹی کو چوما نیو یارک سے لے کر قدم قدم پر کو وڈ ٹیسٹ ٹنگ کا بڑا اچھا انتظام تھا خاص طور پر علامہ اقبال ائیر پورٹ پر ریپیڈ کووڈ ٹیسٹ کا تھا میرے قائد تحریک عدلیہ رانا رمضان صاحب جو اکتوبر کے اختتام پر لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن کا آنکھوں دیکھا منظر دیکھنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں اور فکر مند ہیں کہ جہاز میں اْن کو کووڈ نہ لڑ جائے، میں اْن کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ وہ بے فکر ہو کر جہاز میں سوار ہوں وہ کووڈ کو لڑ سکتے ہیں کووڈ ان کو نہیں لڑے گا ہا ہا ہا ـ رہا سوال سیاست کا تو امریکہ میں آباد میرے اہل وطن! آپ لوگوں نے سْن بھی لیا ہو گا، ن لیگ کے سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر صاحب کی نازیبا ویڈیو لیک پر شور و غوغا سرکاری لوگوں نے تماشا کھڑا کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن مریم صفدر نے یہ کہہ کرکہ جو مرضی ہو جائے زبیر میرے ترجمان رہیں گے یہ اْن کا ذاتی معاملہ ہے بقول شاعر!
ایک وعدہ ہے جو کسی کا وفا ہوتا نہیں
ورنہ اِن چاندنی راتوں میں کیا کچھ ہوتا نہیں
اور دوسرا شور ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے نکال شہباز شریف نے برطانیہ کے ایک کورٹ کے فیصلہ پر ڈالا ہوا ہے کہ اْس کو اور اْس کے بیٹے سلمان شہباز کو کلین چٹ مل گئی ہے اور کورٹ نے اْن کو صادق و آمین ڈیکلیر کر دیا ہے فیصلہ کچھ ہے شور کچھ ہے لیکن جو مقامی کرپشن ہے اْس پر بات ہی نہیں ہو رہی کوئی ٧٢ ارب کی ٹی ٹیوں کی بات نہیں ہو رہی حیرانگی اِس بات پر ہے کہ کیسا ملک ہے یہ کہ کرپشن سے لدا شخص اور اْس کا بیٹا حمزہ شہباز ہماری سیاست کے محور ہیں ۔
قارئین وطن! مجھ کو ابھی تین دن ہوئے ہیں لاہور کی مٹی پر اْترے اور سفر کی سختیاں ابھی تک وجود کا حصہ ہیں اور اوپر سے میرے گھریلو انچارج کو ڈینگی ہو گیا ہے جس سے سارا نظام درہم برہم ہوا ہے اللہ شاہد وٹو کو جلد صحتیابی عطا کرے تاکہ جلد سے جلد سیاسی سرگرمیاں جاری کروں لہٰذا ابھی تک تین دن میں لوڈ شیڈنگ کو انجوائے کر رہا ہوں اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ اے میرے اللہ ایسا تو نہیں تھا میرا پاکستان جی ہاں مہنگائی اپنے عروج پر ہے اپنے آس پاس کے لوگوں کو شور مچاتے اور روتے دیکھ رہا ہوں لیکن نیو یارک میں بھی بڑی مہنگائی ہے لیکن وہاں کریڈٹ کارڈ ہماری مہنگائی کو سبسیڈائیز کر دیتی ہے اسی وجہ سے اْس کا اثر محسوس نہیں ہوتا، سیاست یہاں پر کرائے کے صحافی بھائیوں نے مریم صفدر اور چچا جانی شہباز شریف کے درمیان اْٹھا رکھی ہے کہ وہ اس سے خوف کھاتی ہے اور وہ اِس سے خوف کھاتا ہے یہی ٹاک شوز پر سنایا اور دکھایا جا رہا ہے یہ ہے میرے قائد اعظم کے پاکستان کی سیاست کا حال ، ہر چھوٹا بڑا سیاست دان ایک ہی جانب دیکھ رہے ہیں چھڑی والے کی طرف جس کی چھڑی سات لاکھ فوج کو اِدھر سے اْدھر کرتا ہے اور ہم لوگوں کا یہ عالم ہے کہ چوروں اور ڈاکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں ہمیں خدا کا خوف ہی نہیں رہا کہ سیاست کے تقاضے کیا ہیں لیڈر شپ کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے نام قائد اعظم کا لیتے تھکتے نہیں لیکن ہمارے مزاج میں چور اور خائین بسے ہوئے ہیں تیاری ہو رہی ہے مریم اور دوسری طرف سندھی لاڈو بلاول زرداری کیا یہ بھی تماشہ ہم دیکھیں گے اللہ وہ دن نہ دکھائے افسوس اِس بات کا ہے کہ کراچی سے خیبر تک ایک بھی رہنما نظر نہیں آ رہا کہ جو قوم کو رائے راست پر لائے اور ہم اِن چھڑی باز سیاسی مسخروں سے دور رہیں اور نواز، شہباز، زرداری، فضل الرحمان جیسے کیریکٹر وں کو سیاست کے قبرستان میں دفن کریں شاید ہم پھر اچھے سفر پر گامزن ہو سکیں ورنہ بحیرہ عرب قریب ہے ڈوبنے کو ـ
٭٭٭