نیویارک(پاکستان نیوز) افغانستان سے افواج کی واپسی کے فیصلے نے بائیڈن حکومت کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر دیئے ہیں ، سالوں سے اپنی جانی و مالی قربانیاں دینے کے بعد افغانستان میں قیام امن کے بعد ایک مرتبہ پھر طالبان نے سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے ، اقوام متحدہ ، امریکی محکمہ دفاع اور ماہرین نے بائیڈن حکومت کو وارننگ دی ہے کہ امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد طالبان دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں اور افغانستان کے 70 فیصد علاقے پر دوبارہ قبضے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں ، عالمی ماہرین کی جانب سے بائیڈن کے افغانستان کے معاملے پر پاکستان کو نظر انداز کرنے پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے ، امریکی سینیٹر لِنڈسے گراہم نے صدر جوبائیڈن کے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ نہ کرنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ سن کر حیرت ہوئی کہ صدر بائیڈن نے پاکستانی وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے پاک امریکا اور افغانستان تعلقات کے بارے میں رابطہ نہیں کیا۔ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ پاکستان سے ہم آہنگی کے بغیر افغانستان سے ہمارے فوجیوں کی واپسی موثر ہوگی جبکہ بائیڈن انتظامیہ واضح طور پر جانتی ہے کہ انخلا کے بعد بھی افغانستان میں ہمارے لیے مسائل موجود رہیں گے، پاکستان کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ بڑی تباہی کی صورت میں عراق میں ہونے والی غلطی سے بھی بدتر غلطی ثابت ہوگی۔سینیٹر لنڈسے گراہم نے صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ بائیڈن ، ہیرس کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے چھ ماہ کے دوران بہت سے فاتحین سامنے آئے ہیں ، فوکس نیوز کے مطابق سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ چین جیتنے والوں میں قابل ذکر ہے، اس کے علاوہ میکسیکو کا منشیات سمگلر ، افغانستان میں طالبان ، ایران میں آیت اللہ ، روس میں ولادی میر پیوٹن امریکہ کے خلاف فاتحین میں شامل ہیں ۔سینیٹر نے وائٹ ہائوس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی تارکین کے معاملات کو بھونڈے انداز سے حل کیا جا رہا ہے جوکہ ایک اور ناکامی ہے ، ایسے تارکین جن کے کیس عدالت میں عدم حاضری کی وجہ سے ختم کردیئے گئے تھے کو دوبارہ بحال کیا گیا ہے ۔افغان فورسز طالبان کیخلاف کارروائیوں میں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں ، مختلف محاذوں میں ناکامی پر افغان صدر اشرف غنی نے آرمی چیف کو تبدیل کر دیا ہے ، امریکہ کے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں نے اپنی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ افغانستان سے آئندہ چند مہینوں میں امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہاں موجود سرکردہ دہشت گرد گروپ امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو امریکی اراکین کانگریس کو بتایا کہ القاعدہ جیسے گروپ ممکنہ طور پر دو سال کے اندر اپنی اہلیت دوبارہ حاصل کر لیں گے اور امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر نے کے قابل ہونگے۔جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے مزید خبردار کیا کہ یہ عرصہ دو سال سے کم بھی ہو سکتا ہے اور اس کا انحصار افغانستان کی موجودہ حکومت کے مستقبل پر ہے۔جنرل ملی کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان کی حکومت ناکام ہو جاتی ہے یا مقامی سیکیورٹی فورسز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ خطرہ بڑھ جائے گا۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے باقی ماندہ تمام امریکی افواج 11 ستمبر سے پہلے نکال لی جائیں گی۔ انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ افغانستان کے اندر القاعدہ اور اس کے سربراہ اُسامہ بن لادن کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملے پر جوابدہ ٹہرانے کا بنیادی مقصدحاصل ہو چکا ہے لیکن اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی نہ رہی تو وہاں القاعدہ اور اسلامک سٹیٹ خراسان جیسے گروپ دوبارہ اُبھرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اقوام متحدہ نے اس صورت پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت سے جاری اس عسکری مہم سے جنگ زدہ افغانستان میں سیاست، سلامتی اور امن کے عمل میں ہونے والی پیش رفت کے اُلٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔افغان حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں طالبان بڑے علاقوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور اب وہ اپنے قبضے والے جنوبی علاقوں سے نکل کر مزید خطوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منگل کے روز طالبان نے شمالی علاقے کے اہم شہر شیر خان بندر پر قبضہ کر لیا تھا، یہ افغانستان کا ایک اہم شمالی قصبہ ہے جو تاجکستان کے ساتھ افغانستان کی مرکزی سرحد عبور کرنے کے لیے استعمال آتا ہے۔منگل کے روز افغان حکام نے کہا تھا کہ طالبان نے ضلع ناہرین اور بغلان کے اضلاع کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، یہ دونوں اضلاع شمالی صوبے بغلان میں واقع ہیں۔