مسلمانوں سے دو باتیں !!!

0
106

بوعلی سینا نے بے حد متانت وسنجیدگی سے کہا کہ سنو! تمہارا بستر نہ چھوڑنا اور مجھے وضو کے لیے پانی نہ دینا ہی تمہارے سوال کا جواب ہے۔ خادم ہکا بکا رہ گیا اور حیرت ناک نگاہوں سے بوعلی سینا کو دیکھے جارہا تھا پھر اس سے رہا نہ گیا تو عرض کیا کہ حضور! بات سمجھ میں نہیں آئی۔ برائے کرم وضاحت فرما دیں تاکہ مجھے اطمینان حاصل ہوجائے۔ بوعلی سینا نے کہا دراصل تم نے کچھ عرصہ پہلے سوال کیا تھا کہ لوگ میری اتباع وپیروی کرتے ہیں مگر میں رسول اللہۖ کی اتباع وپیروی کیوں کرتا ہوں اس کا جواب آج تم نے اپنے ہی عمل سے دے دیا۔ بات یوں ہے کہ میں نے تم سے وضو کے لیے پانی طلب کیا اور تم نے سردی کا عذر پیش کرکے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی مگر مئوذن کو دیکھو خواہ برسات ہو یا گرمی، طوفان ہو یا سردی وہ کسی بھی چیز کی پروا کیے بغیر بوقت فجر بھی اپنے بستر کو خیر آباد کہتا ہے اور سیدھے مسجد میں آکر اذان گاہ میں خداوند قدوس کی وحدانیت ومعبودیت اور رسول اکرم کی رسالتۖ و نبوت کا ببانگ ودہل اعلان کرتا ہے۔ اب بتائو کہ میں اس رسول کی بھلا کیوں نہ اتباع و پیروی کروں جس کی اطاعت ساری کائنات کرتی ہے اور ساری کائنات کو رب قدیر نے اطاعت کا حکم صادر فرمایا ہے، یہ جواب سن کر خادم مبہوت رہ گیا۔
آج ہم اپنی زندگی، معاشرہ اور سماج کا سنجیدگی سے تجزیاتی مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم میں اسلام کی کون سی خوبی پائی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے سارے اوصاف اور اسلامی عظمت و وقار کو پس پشت ڈال دیا۔ اغیار ہماری صفات کو اپنا کربام عروج پر پہنچ گئے اور ہم غیروں کی تہذیب و تمدن کو اپنا کر دن بدن پستیوں کی جانب بڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن پھر بھی ہمارا احساس بیدار نہیں ہوتا۔ بار بار ٹھوکریں لگتی ہیں تب بھی ہم نہیں سنبھلتے۔ آخیر یہ جمودو تعطل کیسا اور کب تک؟ دیگر ممالک کی بات چھوڑیئے اسی ہندوستان میں سالہا سال مسلمان حکمراں رہے لیکن آج ہندوستان میں مسلمانوں کی جو پوزیشن ہے وہ ناقابل بیان ہے اور نہ صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کے لائق۔
مسلمانوں! اسلام کی گراں قدر بے بہا دولت ہمیں آسانی سے نہیں ملی بلکہ سخت جاں نشانیوں کے بعد اسلام پھولا پھلا اور پروان چڑھا ہے۔ اسی اسلام کی ترویج واشاعت کی خاطر نبی کریمۖکو خارزار ادیوں سے گزرنا پڑا، جسم اقدس پر پتھر کھانا پڑے، شعب ابو طالب میں قید وبند کی صعوبت جانکاہ سے دوچار ہونا پڑا، کفار مکہ کے صبر آزما ظلم واستبداد سہنا پڑے اور اسی اسلام کی بقا وصیانت کے لیے صحابہ کرام نے اپنا خون جگر پیش کیا اور امام عالی مقام اور ان کے عزیز و اقارب نے اسلام کے لیے اپنی زندگی کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر رکھ دیا مگر ہماری وفاداری یہ ہے کہ آج ہم بڑی بے دردی اور ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کے مقدس اصول وضوابط کو روندتے چلے جارہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here