آج جب سوشل میڈیا پر اس خبر کو بار بار دیکھا اور سنا کہ آسٹریلین خواتین نے غزہ میں مسلمان بچوں پر ظلم وبربریت کے حالات اور انکی ماں کا صبر دیکھ کر اجتماعی اسلام قبول کیا تو ان کی اجتماعیت پرا بڑا رشک آیا اور قرآن کی ایک آیت نے روح وجسم کوگھیرا سالیا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ تم نہ اٹھوگے تو ہم اور لوگ لے آئیں گے جو میرے دین کی خدمت کریں گے ،ان عورتیں نے غزہ کی خواتین اور بچوں کا ایمان دیکھ کر دین اسلام سے محبت کرلی کہ ایسی شجاعت تو ہمارا دین نہیں سکھاتا ہے ،یہ کیسی عورتیں ہیں ،ہمیں ان جیسا بننا ایسی ہی عورتوں کے بطن سے محمد بن قاسم ،سلطان صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد ،محمود غزنوی ،جیسی اولاد پیدا ہوتی ہے جو تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔غور طلب بات یہ ہے ہم مسلمان عورتیں کیسی مائیں ہیں ؟ ہمارے ایمان کا لیول کیا ہے ؟ان حالات میں ہمارے ایمان میں کس درجے اضافہ ہوا ہے ؟ غزہ کے مسلمانوں کی محبت میں ہم کیا اختیار کر سکتے ہیں کیا چھوڑ سکتے ہیں ؟ان خواتین نے تو اپنا دین ہی چھوڑ دیا ! ایک ہم ہیں کہ اپنے گھر اپنے کجن سے اسرائیلی پراڈکٹ نہیں نکال سکے اپنے بچوں کے دلوں میں امت مسلمہ کی اتنی محبت نہ پیدا کرسکے کہ لیز چبس اوریوبسکٹ اور کوکا کولا جیسی چیزوں کو چھوڑ سکیں ،اگر ہم نے اپنی اچھی تربیت کی ہوتی ،دین اسلام کے ساتھ وفا کی ہوتی، خود غرضی ،خودپرستی اور دنیا کی محبت کو اپنا شعار نہ بنایا ہوتا تو ہماری نسلوں میں بھی اللہ ایسے افراد ضرور پیدا کرتا جو دین اسلام کی حفاظت کرنے والے ،تاریخ دھارا بدلنے والے ،اسلام کو غالب ونافذ کرنے والے ،کفر کاسر توڑنے والے ،ظلم کومٹاکر انصاف قائم کرنے والے ہوتے !!! اب بھی ہمارے پاس وقت ہے بہت دور نہ بھی جائیں تو آج کی غزہ کی بہادر ماں سے سبق لیں جنھوں حضرت خنسا رضی اللہ تعالی کی یاد تازہ کردی جنھوں نے حضرت عمر کے دور میں جنگ قادسیہ میں اپنے چار بیٹوں کی شہادت پر اللہ کا شکر ادا کیا، ہم کیا اللہ کے دین کی محبت میں نفس کا جہاد بھی نہیں کرسکتے ؟ان کناہوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتے جن میں ہمارا اپناہی فائدہ ہے ان نیکیوں کو بھی اختیار نہیں کرنا چاہتے جن میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے ہم دراصل اپنی خطاں اور گناہوں کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتے ہیں تو اصلاح کہاں سے اور کیسے ہوگی ہر غلط بات اور کام کی ذمہ داری ہم دوسروں بر ڈال کر خود بری ہونا چاہتے ہیں جو کہ خالص منافقانہ صفت ہے ہر کرنے والے کام کو بحث وتکرار تمسخر اور طنز مزاح کی نظر کرکے خوش ہوتے یا پھر شک وتذبذب کاخود بھی شکار رہتے اور دوسروں کو بھی مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جیسا کہ آج کل اسرائیلی پراڈکٹ کے بائیکاٹ کی مہم زوروں پر ہے اور ہونی بھی چاہئے لیکن ہم ہی میں سے کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں کہ اس سے کیا ہوگا ،ایک ہمارے کرنے سے کیا ہوگا، دوسرے پراڈکٹس اتنے گھٹیاآ رہے ہیں حالانکہ جب یہ چیزیں مارکیٹ میں نہیں آئیں تب بھی ان کو کھائے پیئے بغیر زندہ تھے اور ہماری زندگی کے سارے کام چل رہے تھے اور دنیا کا کارخانہ آباد تھا، ایک دوسرا سر پھرا گروپ ہم میں سے ہی کہتا کہ اس میں کونسا اسلام ہے، ان احمقوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ سارے کاسارا گیم ہی تجارت کاہے ورنہ اللہ اور اس کے دین کے دشمن اپنی ادنیٰ سے ادنیٰ چیزوں کی ایڈورٹائزمنٹ پراتنی صلاحیت اور مالیت نہ خرچ کرتے اور یہ تو ہیں ہی دنیا کے پجاری دین کو بیچ کر دنیا خریدنے والے !اس لئے ہمارے دین نے ہمیں بتایا ہے کہ تمام ذریعہ معاش میں حلال تجارت افضل ہے تاکہ دنیا کا ضمام کار صالح ہاتھوں میں رہے اس حلال تجارت کے ذریعے اپنی تاریخ اپنے دین سے ناواقف مسلمانوں کو اس بات کا شائد علم بھی نہیں کہ خود ہمارے رسول صلا للہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے دوران یہ طریقہ اختیار فرمایا جب کافی دنوں محاصرے کے بعد بھی خیبر کا قلعہ فتح نہ ہوا تو آپ صلا للہ علیہ وسلم نے قلعے کے ارد گرد جو کھجور کے باغات تھے اس کو کاٹنے کا حکم دیا تاکہ دشمنوں کو معاشی بحران میں مبتلا کیا جاسکے اور یہ صورت حال دیکھ کر قلعے میں محصور دشمنوں نے اپنی شکست تسلیم کی اور قلعہ مسلمانوں حوالے کرکے وہاں سے نقل مکانی کرگیے کہ جب سارے ناغات ہی نہ رہیں کے تو تجارتی نفع کہاں سے حاصل کریں گے ،اسی سنت کو زندہ کرکے دشمنوں کی معیشت پر ضرب لگا ان کو بیبس کرنے کی ترغیب ہمیں دی جارہی ہے جسے ہم اپنی بیوقوفی ، نادانی، کم عقلی ،کم علمی ،منافقت اور مادہ پرستی کی وجہ اختیار نہیں کرپا رہے ہیں جب ہم اللہ ،رسول اور اس کے دین کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں نہیں دے پا رہے ہیں تو ہمیں اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ اپنی موت کے لیے فکر مند ہونا چاہئے۔
٭٭٭