پاکستان کی76سالہ تاریخ نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد طاقتور اداروں نے پاکستان کے سیاسی جمہوری نظام کو پوری طرح سے اپنے قبضہ میں لاکر یہ فیصلہ کرلیا کہ ہم فیصلہ کرینگے کہ کون ملک کا سربراہ ہوگا جسکی ابتدا جنرل ایوب خان کی طویل حکمرانی سے ہوئی جسے اس ملک کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا صنعتی انقلاب کے نام پر ملکی دولت اور معاشی نظام بائیس خاندانوں کے حوالے کرکے مزدور یونین اور ترقی پسند تحاریک یا سیاسی جماعتوں پر قدغین لگا دی گئیں۔ پہلے تو یہ ہری پور ہزارہ (جوکہ ہندگو بولنے والا) خطہ ہے، اس کا ہے پشتون جنرل جس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے مدت ملازمت میں توسیع کی بڑی کوشش کی، مسلسل ناکامیوں کے بعد اس سادہ لوح(بظاہر) پٹھان جنرل نے فیصلہ کیا کہ توسیع تو ملے گی نہیں کیونکہ میں بندوق کے بلبوتے پر اقتدار پر شب خون مارا پہلے پہلے تو اپنے دوست اور محسن اسکندر مرزا کو بے عزت کرکے چلتا کیا پھر اقتدار پر قابض ہو کر اپنے اردگرد خواجہ شھاب الدین اورالطاف گوہر جیسے ذہین وفطین لوگ اکٹھے گئے جو بظاہر تو جنرل طور پر وہ جنرل کے اطالیق یعنی اساتذہ تھے جنہوں نے اس دور کے ذرائع ابلاغ کی طاقت سے جنرل کو روشناس کیا پھر میڈیا میں ایوب خان کی کرخت اور ناہموار شخصیت کی سنگ تراشی کرکے جنرل کا ایک سافٹ امیج(تصور)بنایا۔ اسی تصور کو مغربی ذرائع ابلاغ میں بیچا گیا حکومت پیسہ(فنڈ) خرچ کرکے ایوب خان کو پیش کیا پھر امریکی صدر جانسن کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیکر تعلقات میں خوشامد کی کھاد ڈالی گئی۔ اب ظاہر تو یہ سب کچھ ایوب خان کا کیا دھرا نظر آیا لیکن بدقسمتی سے اس ساری شخصیت سازی کے پیچھے دو اشخاص کی انتھک کاوشیں تھیں اور یہ نامور صحافی الطاف گوہر اور شریف النفس ادیب شھاب الدین جن کی ایک صاحبزادی مشہور براڈ کاسٹر ثریا شھاب تھیں۔ یہ دراصل کشمیری تھے جن کی جڑیں مضبوط کشمیر میں تھیں۔ اصل منصوبہ سازی یہی موصوف کرتے تھے ایوب خان کے خاص سیکرٹری اور کم گو نمازی پرہیز گار تھے۔ الطاف گوہر تو میڈیا ایڈوائزر تھے انہوں نے یہی ایوب خان کی کتابFrtoads net mosterقلمبند کرکے ایوب خان کا نام بطور لکھاری جڑ دیا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ ایوب خان کے اقتدار کو طول دینے میں ان دو معزز شخصیات نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا دوسرے الفاظ میں یہ کرائے کے قلم کار تھے جن کو انہی کے بعد حکمرانوں کو ہمیشہ قلم فروش اور ضمیر فروش لوگ مہیا ہوسکے۔ پھر ایک یہ ختم ہونے والا سلسلہ حل نکلا۔ جنرل ضیا نے اپنی وفاداری کا رضاکارانہ حلف وفاداری قرآن پاک ہاتھ میں لیکر اٹھایا پھر نہ صرف بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر اور زبردستی قبضہ کیا بلکہ اس خوف سے کہ بھٹو زندہ رہا تو مجھے پھانسی پر چڑھا دیگا کیونکہ1973ء کے آئین میں آئین کی پامالی کی سزا موت ہے۔ اس بزدل شخص نے دو مرتبہ وزارت عظمیٰ پر رہنے والے منتخب وزیراعظم کو تحتہ دار پر لٹکا دیا پھر جمہوریت کا راستہ روکنے کیلئے نئے نئے تجربات شروع ہوگئے مجلس شورا، مقامی حکومتیں بہا کر نچلی سطح پر کاونسلروں کو لمبی رقوم مہیا کرکے سیاست میں بدعنوانی کی بنیاد بنا ڈالی۔ شریعت کے نام میں مولیوں کو وضو الائو نہیں اذان الائونس اور اسے اسے الائونس دے ڈالے کے مولیوں نے ضیاء الحق کو مرد مومئن بنا ڈالا اور مجاہد اسلام کہہ کر یہ فتوا دے دیا کہ اگر اسلام کو کوئی بچا سکتا ہے تو جنرل ضیا، بچارے جماعت اسلامی جیسی باشعور اور پڑھی لکھی جماعت بھی اس شخص کے پھندے سے بچ نہیں سکی۔ بعد میں مرحوم پروفیسر غفور نے اس کو جماعت کی بڑی سیاسی غلطی قرار دیا لیکن پھر جماعت اور عمران خان حمایت سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے ریفرنڈم کا سہارا لیکر کام چلایا لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور17اگست1988 کو بقول غلام اسحاق خان کے ہمارے محبوب صدر کا طیارہ اور میں پٹ گیا اپنے پشتو تلفظ میں ریڈیو ٹی وی پر آکر اعلان کردیا جنرل مشرف کا دور بھی ملک میں دہشتگردی اور انار کی کا دور رہا۔ انہوں نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پر بدعنوانی کا الزام لگا کر پہلے جیلوں میں ڈال دیا افسوس سے کہنا پڑیگا کہ اعلیٰ عدلیہ کا بھی ان تمام ادوار میں کردار الطاف گوہر اور خواجہ شھاب الدین والا ہی رہی بھارتی تنخواہوں اور مراعات کے بدلے ملک کا سودا کے ملک کا مستقبل کا سودا کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔ آخر میں بکائو سیاسی سودا گران کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے جنہوں نے اپنے اقتدار اور لوٹ مار میں حصہ پانے کیلئے غریب عوام کے مفادات پر مسلسل شب خون مارا لیکن انہی سیاستدانوں پھر مدافعت بھی کیا اور جیلیں بھی کاٹیں۔ آخر کار یہ چھتر سالہ بوڑھا نحیف پاکستان تھک ہار کر نڈھال ہوگیا ہے اسے دکھ ہے کہ اس کا کسی نے نہیں سوچا سب نے اپنے مفادات کی حفاظت کی اس بوڑھے اور ضعیف پاکستان کو آجکل کی اولاد کی طرح گھر سے نکال کر سڑک پر پھینک دیا ہے کہ جائو اب تمہارے لئے ہمارے یپاس کوئی جگہ نہیں کیونکہ اب پاکستان بوڑھے باپ کی طرح کمزور وناتواں ہوگیا۔ جو خون اور طاقت تھی وہ تو اولاد نے چوس لی اب اسی آم کی چوسی ہوئی گھٹلی کس کام کی ہے اب تو صرف کوڑے میں پھینکنے کے لئے رہ گئی خدا کے واسطے انسان کو بچائو پتلی تماشہ بند کرو۔
٭٭٭٭