دیوانہ یا فرزانہ !!!

0
53
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

موجودہ حالات سے گھبرائے ہوئے، ایک صاحب حال اور صاحب علم نے دیوانگی اختیار کرلی، وہ مسلمان تھا۔ معاشرہ بھی مسلمان ہی تھا۔ مگر صراط مستقیم سے ہٹ چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ لامحدود شریک بنا رکھے تھے۔ نیب کے محکمے کے ڈر سے کام چھوڑ بیٹھے تھے۔ نیب کا اتنا ڈر تھا کہ وہ خدا کا ڈر بھول چکے تھے۔ رشوت دینے والا خوش تھا۔ میرا کام ہوگیا۔ جتنی تگڑی رشوت ہوتی اتنا بڑا کام ہوتااور پھر ٹی وی، انٹرویوز میں کھل کر بتایا جاتا۔ تم بھی رشوت دو اور اپنی ناجائز فائلوں کو پیسے لگائو۔ رشوت لینے والا سوچتا میری ساری زندگی کی تنخواہ اس قابل نہ تھی کہ میں ایک عدم عام سا مکان بنا سکتا۔ مجھے بنی بنائی سجی سجائی کوٹھی مل گئی ہے۔ رشوت دینے والا بھی خوش اور رشوت لینے والا بھی خوش دیوانہ یا فرزانہ رک کر کہتا یہ دونوں خوش ہیں یہ نہیں جانتے رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ ایک جگہ سے گزرا لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارا لیڈر تو دودھ کا دھلا ہوا ہے۔ یہ جو لوگ عورتوں کے بچوں کے جانوروں کے الزام لگا رہے ہیں یہ اس کی ذاتی زندگی ہے ہمیں کیا غرض کسی کی ذاتی زندگی سے صراط مستقیم کا تقاضا تھا کہ امام مفتی لیڈر، پیر جو بھی مقتداء ہو اس کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی ،ساری زندگی قوم کی زندگی ہوتی ہے۔ اس نے پڑھا تھا سحری کے وقت سرکار دو عالم کی ایک بیوی کھانا دینے آئی ،ایک صاحب پاس سے گزرے آپ نے آواز دی کون عرض حضور عثمان بن مظعون آپ نے فرمایا یہ میری بیوی ہے کھانا دینے آئی ہے عرض کی حضور اس کی کیا ضرورت تھی۔ فرمایا ضرورت ہے شیطان تمہیں بہکا سکتا ہے۔ مسجد کے دروازے پر سرکار دو عالم کے ساتھ کون عورت تھی۔ اس لئے بتا رہا ہوں کہ میری بیوی ہے۔ ایک پیر صاحب کو دیکھا پراڈو گاڑی سے اترا کھانا کھانے ریستوران میں چلا گیا۔ خادم اور ڈرائیور کو گاڑی کی حفاظت کیلئے چھوڑ گیا۔ سرکار دو عالم اپنے خادموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے۔ یہ پیر صاحب کس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بڑے بڑے نامور مولویوں کا جمگٹا تھا۔ مرغن کھانے سامنے رکھے تھے۔ میں اجنبی تھا میں نے استدعا کی اللہ واسطے مجھے کھانے میں شریک کرلو۔ اچار اور تھوڑی سی سلاد میری طرف بڑھا دی۔ خود پراٹھوں اور مرغ مسلم پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ میں اٹھ آیا راستے میں ایک عوت دو بچے لیکر کسی کو ڈھونڈ رہی تھی میں نے پوچھا بہن کس کو ڈھونڈ رہی ہو۔ کہنے لگی میرا خاوند چلہ کشی کے لئے جماعت میں گیا ہوا ہے، مجھے کوئی خبر نہیں، کہاں گیا ہے؟ میں مسجد مسجد ڈھونڈ رہی ہوں۔ گھر میں ایمرجنسی ہے، بتائو میں کیا کروں؟ اب مجھ سے برداشت نہ ہوسکا۔ اورسیدھا پاگل خانے چلا گیا۔ میرے دوست میری تلاش میں آنکلے۔ پوچھا کیا ہوا۔ کہنے لگادیکھو تم کیسے کیسے جبر ودستار سے مزین لباس۔ انواع و اقسام کے عمامے، ٹوپیاں اور جسم کو عطر سے بسائے ہوئے لوگ ہو۔ جو دین کا کام چھوڑ کر ایک معمولی شے کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ لوگوں کی ناجائز تعریفیں کرتے ہو تاکہ اپنی دنیا سیدھی کرسکیں جائو میرا پیچھا چھوڑ دو۔ میں اب تم میں سے نہیں ہوں یہ کہہ کرپھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا جب سب چلے گئے تو ہنسنا شروع کردیا اب وہ واقعی پاگل ہوچکا تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here