کچھ روز سے زرداری صاحب کی تقریر پر بہت تنقید ہو رہی ہے کہ تقریر کرتے ہوئے زبان لڑکھڑا رہی تھی۔صدر صاحب دیکھ کر بھی درست تلفظ ادا نہیں کر سکتے تھے ۔جب بندے کا دماغ سکڑ جائے تو وہ بولتا کچھ ہے اور منہ سے کچھ اور نکلتا ہے لیکن پیارے ھم وطنو ! یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ملک کے صدر صاحب بولنے سے قاصر ہیں!
ماضی قریب کی بات کریں محترم چوہدری شجاعت صاحب بھی عبوری وزیراعظم رہ چکے ہیں جن کی بات کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔جب صحافی ان سے دوبارہ سوال کرتے تو چوہدری شجاعت (مٹی پا) کہہ کر جان چھڑاتے۔ یہ حکمران ملک اور عوام پر مٹی پا چکے ہیں۔ اِس بدقسمت ملک پر اِس سے پہلے بھی کئی ایک حکمران مسلط رہ چکے ہیں جو نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ ہی بول سکتے تھے اور ان کا نام تھا ملک غلام محمد۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ‘شہاب نامہ’ میں لکھتے ہیں غلام محمد جو 1951 سے 1955 تک متحدہ پاکستان کے گورنر جنرل رہے۔ فالج اور لقوے کی وجہ سے نہ وہ کھڑے ہو سکتے تھے اور نہ ہی ان کی کہی ہوئی بات کسی کو سمجھ آتی تھی۔ قدرت اللہ شہاب کے بقول صدر صاحب کے منہ سے بس غوں غاں کی آوازیں ہی نکلتی تھیں۔جو صرف ان کی انگریز نرس ہی سمجھ سکتی تھی۔ اکبر ملک نے بھی اپنی کتاب “” کہانی ایک قوم کی”” میں لکھا ہے کہ جب خواجہ ناظم الدین اور ان کے دیگر رفقائے کار نے غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے کا حلف دلایا تو اس وقت غلام محمد کی صحت جواب دے چکی تھی۔ وہ اکثر بیمار رہتے، فالج کے حملے نے انھیں چڑچڑا کر دیا تھا۔ ان کی گفتگو اور کردار میں مخبوط الحواسی کے آثار بھی نمایاں ہو رہے تھے۔ وہ اپنا بیشتر وقت اپنی ایک غیر ملکی سیکرٹری مس روتھ بورل کے ساتھ گزارتے۔ اِس کے باوجود ان کو اقتدار کی شدید بھوک اور پیاس تھی۔ جِس ملک کی 99 فیصد عوام گونگی بہری ہو اس ملک کے حکمرانوں کا گونگا ہونا، زبان کا لڑکھڑانا کوئی حیرت اور اچنبے کی بات نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ان گونگے بہرے ، لولے اور لنگڑے حکمرانوں سے ھمیں نجات نصیب فرمائے۔ اے اللہ میرا وطن سلامت رہے تاقیامت رہے ۔ میرا دیس شاد رہے ،آباد رہے ۔ جیسے ھمارے حکمران گونگے اور بہرے ہیں اس سے زیادہ ھماری عوام گونگی اور اندھی ھے۔ خربوزہ سونگھ کر خریدیں گے۔ تربوز کو ٹک لگوا کر خریدیں گے۔ لیکن اپنی قسمت کا فیصلہ کرتے وقت انکی عقل ماف ، دماغ سن اور جہالت غالب آجاتی ھے۔ حبیب جالب کا کہنا ھے کہ یہ بیس کڑوڑ گدھے ہیں۔ یہ وہ گدھے ہیں جن پر چند سو بدمعاش مسلط ہیں۔ اور ھم وہ بزدل ، کاہل اور دماغ سے خالی قوم ہیں جو کرپشن ، چوری اور ڈاکے کو برا تو سمجھتے ہیں ۔ لیکن کرپٹ ، چور اور بددیانت حکمرانوں کو اپنا آقا بناتے ہیں ۔ سیاسی اشرافیہ ،فرقہ پرست مولویوں، ابن الوقت لٹیروں، لسانیت کے علمبرداروں۔ اور مفاد پرست عناصر سے جان چھڑوائیے۔ یہی وہ درندے ہیں جو اقتدار کے لئے جرنیلوں سے ملکر ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اقتدار میں ھوں تو لبرل بن جاتے ہیں۔ اقتدار چھننے پر واویلا کرتے ہیں ۔وطن پرستی کا ، مذہب پرستی کاخول چڑھا لیتے ہیں ۔انکے کئی کئی چہرے ہیں۔ اندر سے کالے اور باہر سے رنگباز ہیں۔ خالانکہ قوم کے سامنے ایک واحد دیانتدار، صالح افراد کی جماعت اور قیادت بموجود ھے۔ جو نظریاتی اور اہل لوگ ھیں ۔ جنہوں نے گزشتہ ستر سال بغیر کسی عہدے اور منصب کے اس قوم کو بے لوث ڈلیور کیا ھے ۔ طوفان ہو یا زلزلہ ھو یا کوئی قدرتی آفت۔ یا فلڈ ۔ جماعت اسلامی کے بے لوث رضا کار خدمت انسانی میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔قومی فلاح، غربا کی امداد، یتیم اور بے سہارا کی مدد۔ مفت تعلیمی ادارے۔ مفت ڈسپینسریاں اور ہاسپٹلز ۔نہ کبھی یہ ووٹ مانگتے ہیں اور نہ ہی کام جتلاتے ہیں۔
قوم اندھی ھے ۔ ان اندھوں میں کانا راجہ زرداری اور نواز شریف ۔جو مردہ گھوڑے کی شکل میں موجود ھیں۔ شجاعت حسین اور عمران خان کی شکل میں موجود ہیں۔ جنہوں نے قوم کو علاقائی ، لسانی اور مذہبی طور پرتقسیم کر رکھا ھے۔یہ لوگ ایم کیو ایم کے مکروہ چہروں کی شکل میں موجود ہیں۔
جب ہم کسی یوتھئیے سے بات کرتے ہیں تو ان کی بدتہذیبی، چرب زبانی اور گلالی گلوچ سے محسوس ھوتا ھے کہ مسلم لیگ یوتھ ھو یا پی پی پی کے جیالے۔ ایم کیو ایم کے دہشت گرد ھوں یا یوتھئیے ۔ انکا طرز سیاست بیہودگی،اور فاشزم ھے۔ سوشل میڈیا پر گالیوں اور مغلظات کی بھر مار یوتھیوں نے متعارف کرائی ہیں نہ یہ چھوٹے کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ بڑوں کا ادب ۔
ان بے حس جانور نما درندوں سے تب جان چھوٹے گی۔جب مردہ قوم کو عقل وشعور آئے گا۔
ھمارا المیہ یہ ھے کہ ھم چوروں کو تاج بھی پہناتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں انکے ساتھ تصویریں بھی بنواتے ہیں۔ انہیں ماں باپ سے زیادہ مقدم سمجھتے ہیں۔ اللہ جل شانہ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہیں ۔ رسول خدا کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہیں ۔ان فاشسٹ درندوں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کرپٹ سیاسی کارٹونوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔ مرشد مانتے ہیں۔ ھم کیسے فرد ہیں جو پاکستان کو ایک ناکام ریاست ھونے کا گلہ کرتے ۔حالانکہ اس کو ناکام بنانے میں جتنا ہاتھ ان جرنیلوں، کرپٹ سیاسی گماشتوں کا ھے ۔ اتنا ہاتھ ان عناصر کو قوم پر مسلط کرنے کا ھے۔ھماری بدقسمتی ھے کہ غالب اکثریت
اہنے حقوق کا ادراک رکھنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ھوتی۔ رونا پیٹنا کرلیتی ھے -قوم سمجھتی تھی پی ٹی آئی انہیں اس سسٹم سے نجات دلائے گی۔مگر پی ٹی آئی نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جو دوسری نواز شریف ، زرداری اور ایم کیو ایم نے اختیا کیا۔اسٹبلشمنٹ کے کاندھوں کااستعمال کیا۔ایک وقت تھا کہ رائٹ ونگ کا ووٹ بینک مذہبی طبقہ اور
جماعت اسلامی کے ہمدرد افراد کے دل میں عمران خان کے لئے نرم گوشہ تھا ۔ لیکن پی ٹی آئی کی واہیات، بے لگام، بدتہذیب یوتھ کی ٹرولنگ اور گالی گلوچ نے انہیں اکیلا کردیا ھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم اکیلے ھی کافی ھیں۔ تو پھر مولانا کے ترلے منتیں کیوں؟۔مولانا فضل الرحمن جسے مولوی ڈیزل اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا تھا ۔ اچانک ہمدردی اور انکی اسٹریٹ پاور کے استعمال کی خاطر یو ٹرن لے لیا گیا۔
پی ٹی آئی کا المیہ ھے کہ انکی نظر میں وہ پوتر ھے جسے وہ سمجھتے ہیں ۔ اور حرام کو حلال اور حلال کو حرام کہنے کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ یہ یوتھئیے لکیر
لکیر کے فقیر ہیں ۔انکی نظر میں انکی ہر بات پتھر پر لکیر کے مصداق ھے۔
اگر انکا کوئی ساتھ نہ دے تو اسے ملک دشمن ، اور چوروں کا ساتھی گردانا جاتا ھے۔ ایک وقت تھا یہ
ایم کیو ایم کے درندے قاتلوں کو باپ سمجھتے تھے۔اسی اسٹبلشمنٹ کے لئے مرے جاتے تھے۔ باجوہ کے لئے عمران خان کہتے تھے ۔آرمی چیف قوم کا باپ ھوتا ھے۔ آجکل مولانا فضل الرحمن کو باپ بنایا جارہا ھے۔ لیکن باپ ہے کہ انہیں پکڑائی نہیں دے رہا۔مولانا ایک وقت میں کئی پارٹیوں کو کاکا چکوا دیتے ہیں۔اسٹبلشمنٹ کو بھڑکیں اور بیک ڈور مراعات اور رابطے بھی۔
قارئین ! گزشتہ ادوار میں کبھی ن لیگ ،پی پی پی،ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ کی
(دم پخت)رہی ھیں۔کبھی اسٹبلشمنٹ کو گالیاں اور کبھی پیار کی پینگیں۔ جب بھی ان پر مشکل وقت آتا ھے تو یہ جمہوریت کے چمپئین اور نیلسن منڈیلا اور قائد اعظم سے بڑا لیڈر بن جاتے ہیں۔اور کبھی
آٹھ بچوں کی ماں کیطرح گلہ ۔کہ ہمیں سچا پیار نہیں ملا۔جب بانہوں میں بانہیں ڈالکر ہمدردیاںتبدیل کراتے تھے ۔ اس وقت کوئی حیا یا شرم نہیں تھی۔اس وقت کولہو کے بیل کیطرح ،آنکھوں پر کھوپے چڑھائے جرنیلوں کے گرد گول چکر لگاتے رہے۔ یہ سبھی بے ضمیر ،بے حس ،ابن الوقت، مکار اور جھوٹیہیں۔ان سے جان چھڑانا ضروری ھے۔ قوم کو جہالت چھوڑ کر قوم کی ہمدرد، ذاتی مفادات سے پاک ،دیانتدار قیادت کا انتخاب کرنا چاہئے۔ وہ صرف اور صرف جماعت اسلامی کی شکل میں موجود ھے۔ اسکا ساتھ دیجئے۔ یہ آپ کے حقوق کے لئے ہر مخاذ ہر بروقت آواز اٹھاتی ھے۔اس کا ساتھ دیجئے۔ پاکستان کی بقا اور مستقبل کے خاطر دیانتدار،اور صالح قیادت منتخب کیجئے۔
٭٭٭